تاریخ اور ادبثقافتچترالیوں کی کامیابیکالم نگار

منصور شباب: ایک صدا بہار فنکار

پہاڑوں کے دامن میں واقع وادی چترال میں سردیوں کی آمد سے زمین کے ساتھ دلوں کے بھی ٹھنڈ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں شغر گوئی اور کلاسیکی موسیقی نے دلوں کو گرمانے کا کام نہایت ہی احسن طریقے سے نبھایا ہے

ظفر احمد

منصور شباب: ایک صدا بہار فنکار

 

 

پہاڑوں کے دامن میں واقع وادی چترال میں سردیوں کی آمد سے زمین کے ساتھ دلوں کے بھی ٹھنڈ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے میں شغر گوئی اور کلاسیکی موسیقی نے دلوں کو گرمانے کا کام نہایت ہی احسن طریقے سے نبھایا ہے۔ صدیوں سے چلے آئی اس روایت نے منصور شباب جیسے لافانی فنکاروں کو جنم دیا۔ یوں تو چترال میں لوگ بابا سیار، سنوغرو ملنگ زیارت خان زیرک وغیرہ جیسے شغراء و فنکاروں کے فن سے پہلے ہی واقف تھے مگر شباب اور ان کے بینڈ نے سامعین و ناظرین کو نہ صرف نوجوان نسل کے غزلوں سے روشناس کرایا بلکہ قدیم (چترالی) کھوار گیتوں (کاڑومن) کو بھی اس خوبصورتی سے گایا کہ کھوار ثقافت نہایت ہی کم عرصے میں نفاست کی بلندیوں کو چھونے لگی ۔

منصور شباب

شباب نے گلوکاری کا آغاز سکول کے زمانے میں روایتی موسیقی کے اجتماع "اشٹوک” سے کیا۔ بعد میں کالج کے زمانے میں سنجیدگی سے گلوکاری شروع کی۔ اب تک چار ہزار سے زائد کھوار غزلیں اور گیت مداحوں کی نذر کر چکے ہیں، جن میں ہر قسم کے گیت بشمول غزلیں، قدیم لوک گیت سے لیکر مرثیے تک سب شامل ہیں۔ شباب نے بغیر کسی سٹوڈیو اور بسا اوقات بغیر مائیک کے روایتی چترالی کمرے میں بیٹھ کر کچھ اس انداز سے گایا ہے کہ سامعین و ناظرین زمان و مکان کے سارے حدود و قیود سے آزاد ہو کر تصورات کی جنت نظیر بستی میں پہنچ جاتے ہیں۔ شباب نے کھوار موسیقی پر مشتمل 170 کیسٹز تخلیق کیے تھے مگر بد قسمتی کیسٹ کا زمانہ گزر جانے کی وجہ سے وہ سب ضائع ہو گئے، جس کا شباب کو کافی افسوس ہے۔ شباب کے بقول ان کی ٹیم نے ان گیتوں کی کمپوزنگ پر بہت زیادہ محنت کی تھی۔ معیاری ٹیون اور گانے تخلیق کرنے کے لیے دریا کے کنارے ،کسی پہاڑ کے گوشے یا پھر تنہائی میں بیٹھنا پڑتا تھا، بغیر کسی سٹوڈیو کے بسا اوقات ایک ہی ٹیون کو تخلیق کرنے اور ایک ہی گیت کو کمپوز کرنے میں مہینے لگ جاتے تھے۔

شباب گانا گاتے ہوئے

منصور علی شباب کا شمار کھوار ثقافت کی جانی پہچانی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ بیس سال سے کھوار ثقافت کی فروغ میں کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں تاجکستان اور دوبئی کے علاوہ ملک کے کونے کونے میں محفل موسیقی کا انعقاد کیا ۔چترال میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو آپ کا مداح نہ ہو۔ شباب کے شیدائی چترال کے علاوہ گلگت بلتستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔

تاجکستان میں روف آف دی ورلڈ فسیٹول کے موقع پر تاجک فنکاروں کیساتھ

شباب کے بقول مرزا علی جان ، امیر گل اور بابا فاتح کے فن سے متاثر ہو کر گلوکاری شروع کی۔ آپ نے سب سے زیادہ غزلیں افضل اللہ افضل کی گائی ہیں جنہیں وہ کھوار شاعری کے ساغر صدیقی کہتے ہیں۔

نادر شاہ حجاب کیساتھ گانا گاتے ہوئے

 

شباب کے بقول چترال جیسے معاشرے میں غزل گوئی و گلوکاری کسی کو روزگار مہیا کر نہیں کر سکتی۔ بسا اوقت فنکار و شغراء کو خود ہی اپنے فن کو فائی نانس کرنا پڑتا ہے۔ سچ ہے کہ شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

موجودہ دور میں جہاں حکومتی اور فلاحی سطح پہ سر پرستی نہ ہونے کی بدولت روایتی موسیقی سست روی کا شکار ہے ، شباب کو خوف ہے کہ کہیں کھوار موسیقی اپنی پہچان کھو نہ دے ۔ڈان نیوز کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں شباب نے کھوار موسیقی کے فروغ کے لیے میوزک اکیڈیمی کے قیام کو بہت ضرروی قرار دیا۔ اس کے علاوہ اپنے 170 کیسٹز ، جس میں ہر ایک کیسٹ میں دس گیت ہوا کرتے تھے، کے ضائع ہونے پر بھی دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔

روایتی انداز میں ناچتے ہوئے

 

ہمارے شغراء و گلوکار جو اپنے تخلیقی صلاحیتوں کے زریعے انسانی جذبات و احساسات کو نہایت نفیس و دلفریب انداز میں پیش کرکے زندگی میں خوبصورت لمحوں کا اضافہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ سچ میں زندگی گلزار لگتی ہے۔ مگر ہمارے رجعت پسند معاشرے میں فنکاروں کو ان کا صحیح مقام کم ہی ملتا ہے۔ ایسے میں شباب اور ان کے ساتھی گلوکاروں کے ضائع شدہ کیسٹز کی ریکوری اور میوزک اکیڈیمی کے قیام کے زریعے حکومت ، فلاحی ادارے اور کھوار موسیقی کے مداح نہ صرف شباب جیسے فنکاروں کی خدمات کا اعتراف سکتے ہیں ، بلکہ چترالی موسیقی کے فروغ میں بھی اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

 

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button