تاریخ اور ادبثقافتکالم نگارموسیقی

شہنشاہ شہنائی اور چترالی راگوں کا امام استاد اجدبر خان

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

 

 

یہ 14 اگست 1984 کی بات ہے جب صبح 6 بجے بونی دول دینیان ٹیک سے کانوں میں رس کھولتی غلوارکی دھن سے پورا گاؤں گونج اُٹھا تھا ۔ اُس زمانے میں میری عمر یہی کوئی 16 سال تھی ( یاد رہے کہ ریاستی دور میں اسی ٹیلے کے اوپر صبح پو پھٹتے ہی شہنائیاں بجا کر سہ پہر کوکھیلے جانے والے پولو کا اعلان کیا جاتا تھا۔ یوں چوگان بازی کے تمام رسیا پولو شروع ہونے تک گھر ہستی کی تمام سرگرمیاں سمیٹ کر پولو دیکھنے کی تیاریاں مکمل کر چکے ہوتے تھے )- آج صبح کے سرنائے کی آواز میں بلا کی شیرینی تھی۔ راگی نے اپنا راگ کب کا ختم کیا ہوا تھا لیکن میرے کانوں میں اب بھی سرنائے کی روح پرورمگر دھیمی آواز دیر تک محسوس ہوتی رہی ۔ میں نہیں جانتا کہ کیا یہی کیفیت دوسروں پر بھی طاری ہوئی تھی یا نہیں، مجھ پر اُس کا اثر اتنا دیر پا رہا ہے کہ اب بھی اُس لے کی مدہم لہریں دل کے پردوں سے منعکس ہوتی محوس ہوتی ہیں ۔

دنیائے موسیقی میں یہ میرا پہلا انوکھا تجربہ تھا کہ میں ایک غیر مرئی کیفیت سے گزر رہا تھا جس کی تشریح مجھ سےتا حال ممکن نہیں رہی ۔ البتہ میں اتنا ضرورسوچ سکتا تھا کہ سُرنائے پر غلوار کی دھن الاپنے والا اپنے منصب میں واحد و یکتا ضرور تھے۔ ایسی ہی ایک کہانی جب میں نے دنیائے موسیقی کی تاریخ میں تان سین کی پڑھی تو معلوم ہوا کہ اجدبرخان کتنے بڑے راگی تھےکہ جن کے بجا ئے ہوئے ساز تمام موسیقی پرور لوگوں کے دلوں میں نقش ہیں ۔ تاریخ میں اسی طرز کا ایک اورشخص 1500 عیسوی میں گزرے ہیں جن کے سازوں، گانوں اور راگوں میں سوز کی شدت اتنی شدید تھی کہ جب دیپک راگ آلاپتے تو خاموش دیئے جلنے لگتے اور میگھ راگ بجاکر یا پھرگا کر بادلوں کی آنکھوں کو پُر نم کیاکرتے۔ یہ ہے موسیقی کا کمال کہ جس کے سوز سے آگ کے دل میں آگ لگتی ہے اور جس کے ساز سے بے لگام بادل مُسخّر ہوجاتے ہیں ۔ اس سچائی تک پہنچنے کےلیے آج کی سائنس نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ موسیقی، راگ، دھن اور سازوں سے انسان کو اس حد تک محو کیا جا سکتا ہے کہ اُس کے جسم کو چیر پھاڑ کرجراحی کرنے سے بھی دُھنوں میں مست مریض کی آنکھوں سے خمار نہیں اترتا ۔  

    یہی تان سین والا جادواجد برخان( 1918 تا 2003) کےسرنائے کی لَے میں تھا۔ میرے دوست شمس الدین کی تحقیق کے مطابق آپ کے آباؤ ادجداد دیر سے ہجرت کر کے چترال آئے تھے ۔ ریاستی دور میں چترال فورٹ میں اپنے فن موسیقی سے پورے دربار کو محظوظ کئے رکھا ۔ آ پ کی بجائی ہوئی دھنیں آج بھی پرستاروں کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور رہیں گی۔ اُنہیں موسیقی کی سات بنیادی سُروں( سا، رے ، گا ، ما ، پا ، دھا، نی )کو دو پر تقسیم کر کے کھوار دُھنوں کےمخصوص اُتارچھڑہاؤ کےعین مطابق بنانےکا فن خوب آتا تھا۔ کھوارموسیقی کی بعض دُھنیں سات سے زیادہ سروں کی ترتیب سے بنتی ہیں جیسے اگر ہم سونوغروملنگ کا کلام ؎ گمبوریان ایتودیتی شا شوترینین بند کورونیان اوا عشقو قلمدار روے مہ ساری شانگ کورونیان- یا یارخون و حاکم کی دھنی ؎ مشکی نو لیم کھول وطانہ ای یاری جانی اوا سمر قندہ بندی تان دوستو گانی، کی دُھن سنتے ہیں تو سرنائے ، ستار ، بانسری وغیرہ میں ایک اور سُر کی طلب کا احساس ہوتا ہےکیوں کہ موسیقی کے آلات سات سروں کے نقشے پر بنائےہوئے ہوتے ہیں جہاں آٹھواں سُر ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن کھوار موسیقی کا دائرہ کا سار سروں سے زیادہ ہے یہ دئرہ اُس وقت مکمل ہوتا ہے جب گانے یا بجانے والا آٹھواں سر سے گزرے۔ یہ کمالِ فن صرف اجدبر خان کو حاصل ہے کہ سُروں کی انوکھی تقسیم سےآٹھواں کھرج تخلیق کرتے ہیں۔ سُروں کی اس تخلیق کےلیےکسی شہنائی نواز کو اپنی سانسوں پر کنٹرول اور انگلیوں کی پوروں کے استعمال پر خوب دست رس حاصل ہونا چاہئے۔ کھوار موسیقی میں ایک سُر سے ایک اور سُر تخلیق کرنے کا ملکہ چترال کے شہنائی نوازوں میں صرف اور صرف اجدبر خان کو حاصل ہے ۔ سرنائے کے تمام سوراخوں پر انگلیاں رکھ کے ہوا پھونکنے سے جو کھرج پیدا ہوگا وہ موٹا ہوگا( یاد رہے کہ ستار بجاتے ہوئے اوپر کے پردوں میں آواز موٹی اور نشیب میں پتلی ہو جاتی ہے ) جیسے جیسے آپ نیچے سے انگلیوں کی پوریں اٹھا کر اُوپر کی طرف جاتے ہیں تو آواز باریک اور پتلی ہوتی جاتی ہےیوں سرنائے یا بانسری کے اوپر کے آخری خانے سے جب آخری اُنگلی اُٹھ جاتی ہے تو سُروں کا اختتام ہوجاتا ہے۔ ہمارے شہنائی نواز ان ہی سات سُروں پر لے پورا کرتے ہیں مگر گانے کا دائرہ مکمل نہیں ہوتا یوں موسیقی تو جنم لیتی ہے جبکہ دُھن میں تشنگی باقی رہتی ہے لیکن اجدبرخان اپنی سانسوں کی قیامت خیز تغیرو تبدل اور اُنگلیوں کی پوروں کی فنکارانہ جنبش سے سرنائے کی آخری خانے کو دو میں تقسیم کرکے سُرکا وہ جادو جگاتے ہیں جوکہ آج تک اجدبر خان کے علاوہ کسی اور شہنائی نوازکے نصیب میں نہیں آیا ۔ اجدبرخان کی بجائی ہوئی دُھنوں کی کیسٹیں اگر توجہ سے سنیں گے تواُن میں آپ کو کسی دُھن کے صَوتی دائرے کو پورا کرتے کرتے مزید کھرج کے لئے راستہ معاً بند ہوجانے کی صورت میں موصوف کے سرنائے سے ایک پتلا سرُ نکلتا محسوس ہوگا جوکہ اُس دھن کے فطری دائرے کواپنے منطقی نتیجے تک پہنچا ئے گا ۔ اس سحر انگیزی میں موصوف ایک مشکل اور نئے تجربے سے گزر کر ہی یہ سب کچھ ممکن بنا لیتے ہیں ۔ آج کھوار موسیقی میں سُرنائے بجانے والے راگی کئی ایک ہیں لیکن اجدبر خان کی طرز پر بجانے والے شہنائی نواز صدیوں میں بھی شاید پیدا نہیں ہوں گے۔ اللہ مرحوم کو جنت فردو س میں اپنے مقرّبین کی صف میں جگہ عطا فرمائے

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button