اپر چترالتاریخ اور ادبتعلیمتورکھوچترالیوں کی کامیابی

پروفیسر نور شاہدین سے چلتے چلتے گفت و شنید

شمس الحق قمر

پروفیسر نور شاہدالدین صاحب سے میری پہلی ملا قات مارچ1992 میں ہوئی تھی جب آپ جنوبی ڈکوٹا یونیورسٹی سے ابھی ابھی پڑھ کر آئے تھے اور پشاور حیات آباد میں مقیم تھے ۔ راستے چلتے ہوئے جگہ جگہ سے پلاسٹک اور کاغذ کے ٹکڑے اٹھا اٹھا کر جیب میں ڈلتے, بے ھد دھیمی آواز میں گپ شپ لگاتے اور چلتے رہتے ۔ مجھے اُس کی یہ ذہنی پستی دیکھ کر بڑی شرمندگی ہوئی ۔ وہ کچھ اس انداز سے یہ چیزیں اٹھا تا کہ ہمیں بھی اُن کی یہ حرکت نظر جا ئے ۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ ایک اچھا خاصا آدمی امریکہ جاکے ذہنی مریض بن کے واپس آیا ہے آواز میں دھیما پن اور گلی کوچوں کی اپنی بساط کے مطابق بے جا صفائی ایک پروفیسر کیسے کر سکتا تھا۔ میں نے ایک دوستوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا وہ بھی ہنسنے لگے ۔ یہ عقدہ بعد میں مجھ پر کھلا جب میں نے سر سید احمد خان کی انگلستان کی ایک سرگزشت پڑھی جس میں انہوں نے روح، بدن اور علاقے کو صاف رکھنے کا یہی ٹوٹکا بتایا تھا ۔پھر مجھے اپنی غلاظت پر بڑی شرمندگی ہونے لگی ۔ یوں میں نے اُن سے اور زیادہ سیکھنے کی کوشش کی ۔ موصوف سے ملاقاتیں زندگی کے بہترین لمحات میں شمار ہوتی ہیں ۔ ہماری اور اُن کی عمر میں یہی کوئی ۱۲ سالوں کا فرق ہوگا لیکن اپنائیت اتنی کہ لنگوٹیا یاروں کا گماں ہو تا اور ہم بہت کھل کے اُن سے گفتگو کرتے ۔ وہ بڑی عزت اور احترام سے پیش آتے ۔ مجھے لگتا کہ میں بہت بڑا آدمی ہوں کیوں کہ ایک پائے کا پروفیسر میری اتنی عزت کرتا ہے۔در اصل وہ ایک انسان کو اُس کے انسان ہونے کی عزت دیتے تھے کیونکہ اُس نے دنیا دیکھی تھی جو کہ ہمارے ہاں مفقود ہے ۔ انسان کی سب سے بہترین خوبی بھی یہ ہے کہ وہ بغیر کسی لالچ کے آپ کا دل سے احترام کرے ۔ نورشاہدالدین میں یہ خوبی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور ہے۔ دل سے احترام کرنے والے دل میں آباد رہتے ہیں چاہے کتنے ہی دور کیوں نہ ہوں
یہی کوئی پانچ فٹ چار انچ کا لحیم و شحیم قد کاٹھ ، بیضوی اکھیوں کے اوپر خمدار آبرو ، قدرے لمبی ناک ، کشادہ پیشانی جس پر اُلٹے ہاتھ کنگھِی سے سجائے ہلکی سفید بالوں کی لٹ آپ کی شخصیت کو اور بھی جاذب نظر بناتی ہیں ۔ گفتگو میں منطقی تسلسل اور آواز میں مشفقانہ و مخلصانہ دھیما پن ۔ بات چیت دوران سامنے والا ہر آدمی آسانی سے قیافہ شناسی کر سکتا ہے آپ کی آنکھوں اور چہرے کی معصومیت آپ کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ کی سچائی کی شہادت ہے ۔
زمانہ طالب علمی میں جب ہم پشاور یونیورسٹی میں ہوتے تھے تو ہفتے میں ایک مرتبہ ضرور آپ کے سلام کےلیے جایا کرتے ۔ اس عقیدت کی دو وجوہات تھیں پہلی وجہ یہ تھی کہ آپ پاکستان کے مشہور علمی درسگاہ جامعہ پشاور کے پروفیسر ہونے کے باوجود ہمیں ملنے اور گفتگو کےلیے وقت دیا کرتے ، بے حد عزت و تکریم سے پیس آتے ۔ یہ میرے جیسے ایک ادنیٰ سے طالب علم کےلیے فضیلت کا مقام تھا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کی اُن کی اہلیہ کے ہاتھ کے پکے پکوان کی لذت اتنی شاندار ہوتی تھی کہ اُن کے ہاتھ کا پکا کھانہ کھانے کے بعد ہم انگلیاں چاٹتے رہتے ۔ مجھے یاد ہے میں جب جب بھی آپ کے ہاں گیا کائے صاحبہ نے رنگ برنگے طعام کا انتظام ضرور کیا یہ دونوں اعلیٰ ظرفی کا بہترین نمونہ ہیں ۔ اُن کے ہاتھ کے کھانوں کی وہی لذت اب بھی اُسی طرح برقرار ہے ۔ پچھلے سال میرے جنت مکان بھائی احسان الحق اور اُن کی اہلیہ نے مجھے اور میری اہلیہ کو لیکر جورجیا میں اُن کے گھر گیے تھے وہاں ہمیں کائے صاحبہ کے ہاتھ سے پکے طعام سے بھر پور لطف اُٹھانے کا بے حد مزہ آیا ۔ اس لطف کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دستران پر عین میرے پہلوؤ میں میرے بھائی بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔
1993 میں ہم جب یونیورسٹی کے بکھِیڑوں سے آزاد ہوئے تب نورشاہدالدین صاحب بھی یونیورسٹی چھوڑ کو آغا خان رورل سپورٹ پروگرام میں مانیٹرنگ اینڈ ایوالوئشن منیجر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور ہم اپنے معاش کی تلاش میں سرگرداں تھے ۔ اس کے بعد ملاقات نہیں ہوئی البتہ معلوم ضرور ہوا کہ نور شاہدالدین صاحب ہمیشہ کےلیے پاکستان کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور امریکہ میں کہیں جاکر آباد ہوئے ہیں ۔ اب امریکہ جیسی بڑی دنیا میں جاکر آپ کا پتا پوچھنا ہماری بس کی بات نہیں تھی۔ پھر ہم چپ رہے اوراُنہیں بھول بیٹھے

عشروں بعد ہماری ملاقا ت امریکہ کی ایک ریاست جورجیا کے شہر اٹلانٹا میں ہوئی جہاں Ryman Ridge Road کے نکڑ پر پورے خاندان کے ساتھ ایک شیش محل میں رہایش پذیرہیں ۔ یہی کوئی دو کنال کی قطعہ اراضی پر ایک خوبصورت مکان جس کی ایک طرف اُس کا اپنا ایک چھوٹا سا جنگل ( کوچ) جوکہ سرو کے درختوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا ہے گھر کے سامنے صاف و شفاف اور کشادہ گلیاں اور گھر کے عقب میں کائے صاحبہ کی اُگائی ہوئیں سبزیاں ، پھولوں اور پھلدار درختوں کا باغیچہ ۔ گھر کے احاطے میں داخل ہوتے ہوئے یقین نہیں آیا کہ ہم کسی پاکستانی نژاد آدمی کے بنگلے کے احاطے میں داخل ہوئے ہیں کیوں کہ ہر شیئے ایک شاندار سیلقے سے سجی ہوئی تھی ۔
نور شاہدالدین صاحب سے ملاقات پہلی تمام ملاقاتوں سے الگ اور بے حد یاد گار تھی کیوں میں اور میری شریک حیات اورمیرے جنت مکان بھائی احسان الحق جان اور اُن کی اہلیہ کی معّیت حاصل تھی اور اس ملاقات کی دوسری خوبی یہ تھی کہ نور شاہد الدین صاحب پہلے سے زیادہ تپاک سے ملے تھے ۔ ہم واک پر گیے اور نور شاہدالدین صاحب سے چلتے چلتے ادھا گھنٹے کی گفتگو رہی ۔ میری عادت یہ رہی ہے کہ میں جب بھی لوگوں سے ملتا ہوں تو میں اُن کی زندگی کے نشیب و فراز کے دریچے کھلوا دیتا ہوں اور توجہ سے سنتا ہوں ۔ میں یہاں پر یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ جب لوگوں کو قریب سے خوب دیکھیں گے اور توجہ سے سنیں گے تو آپ ایک ایسے سمندر میں ڈوب جائیں گے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا ۔ ہر انسان اپنی ذات میں ایک کائنات ہوتا ہے ۔ یہاں ہمارے پاس نور شاہ الدین صاحب سے غیر رسمی گفتگو کےلیے وقت یہی کوئی ۳۰ یا ۴۰ منٹ تھا ۔ اسی مختصر وقت کو غنیمت جانا شام کی سیر کو نکلتے ہوئے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ موصوف کے بچپن سے پردہ اٹھایا جائے ، کہاں سے پڑھا ، کن مشکلات سے نبرد آزما ہوئے اور کن خوشیوں سے لطف اندوز ہوئے ؟
ہم نے چلتے چلتے جو بات چیت کی اور جو آپ کی زبانی سنا اُس کا پھر کبھی خلاصہ لکھوں گا ۔
انتظار کیجیے

Advertisement
Back to top button