خواتین کا صفحہسفر کہانی

( سفرِ متحدہ ریاست امریکہ ) قسط نمبر ۱

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

ہماری بہ راستہ ترکی امریکہ کی فلائٹ کی تصدیق جب 11 جون 2022کی صبح 5:30 کےلئے ہوئی تو میں نے سوچا کہ 2016 کا سفر نامہ نشر مکرر کے طور پر قارئین کی دلچسپی کےلیے پیش کروں اور پھر بعد میں اس سال کے سفر پر کچھ لکھوں ۔یاد رہے کہ پچھلے سفر نامے کی دوسری قسط میں کئی ایک واقعات پیش ائے تھے۔ ایسے واقعات کہ جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ۔

جہاز پر جانے سے پہلے ہی میرے ذہن میں خوف کا شدید احساس تھا ، یکایک میری زبان خشک ہو گئی، میں اپنے عرصے سے خشک ہونتوں پر بار بار زبان پھیرکر گفتگو کرنے کی نا کام کوشش کرتارہا ۔ میں اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ رات کے کوئی ایک بجے ائر پورٹ پہنچا تھا۔ ہمیں صبح بجے اُڑان بھرنا تھا ۔ میرا چھوٹا کنبہ خوش تھا کہ وہ امریکہ جا رہے ہیں۔ لیکن مجھ پر غم کا پہاڑ ٹوٹا تھا، میرا ذہن بلاوجہ خوف زدہ تھا ۔ میرے بدن پر کپکپی طاری تھی، مجھے ایسا لگتا تھا کہ میرے جسم سے جان نکل چکی ہے، میرا جسم آہستہ آہستہ سرد ہوا جا رہا تھا ، پورے بدن پر سوئیاں چبھتی اور چیونٹیاں رینگتی معلوم ہوتیں تھیں۔ میں یہ تو ضرور جانتا تھا کہ میں کسی بھیانک لیکن نامعلوم واقعے کے خوف سے سہما جا رہا ہوں، دل ہی دل میں کہتا کہ دیکھ تم کتنے ڈر پھوک ہو، موت کا ایک دن معین ہے وہ تو اپنے وقت پر آ ہی جائے گی، موت سے بچنا تیری بس کی بات نہیں،تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالو۔ ہوش کے ناخن لو، تمہیں کونسی سزائے موت ملی ہے کہ تم یوں کانپ رہے ہو، تمہیں شرم آنی چاہئے، کیا دنیا میں صرف ایک آدمی تم ہی ہو جسے جہاز میں بٹھا کر امریکہ بھیجا جا رہا ہے؟ اسی ائیر پورٹ سے تمہارے جیسے ہزاروں لوگ جاتے ہیں۔ ان خیالات سے جب میں نے اپنے آپ کو تسلی دی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے دماغ سے ڈر کی شدت کچھ کم ہو گئی ہے۔ میں جب تھوڑا سا سنبھل گیا تو معلوم ہوا کہ میرے پیٹ میں ماحول گھمیر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں جب یکدم سے خوف زدہ ہوتا ہوں تو وقتی طور پر ایک جلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ چنانچہ میں مختصر رفع حاجت کے لئے بیت الخلا کی جانب گیا، سامنے شیشہ لگا ہوا تھا، شیشے میں دیکھتے ہی نہ جانے کیوں مجھ پر یہ افسوس ناک خیال سرائیت کر گیا کہ جھے اپنے آپ سے خود کلامی کرنی پڑی ” عجیب زندگی گزاری تو نےداعی اجل کو خود لبیک کہ رہے ہو۔ نہیں معلوم کہ چالیس ہزار فٹ کی بلندی سے گرو گے تو کرہ ارض کے کس حصے کے چیلوں کی ضیافت تمہاری لاوارث لاش کا مقدر بنے گی۔ تمہاری زندگی میں تمہارے ذمے بہت سارے کام تھے، وہ سب ادھورے کے ادھورے رہ جائیں گے“ ان خیالات کے آتے ہی رفع حاجت خود ساختہ طور پر معدوم ہو گئی، بلکہ سب کچھ اندر ہی اندرسوکھ گیا۔ میں جب بیت الخلا سے چل کے دوبارہ انظار گاہ کی طرح آرہا تھا تو میری ٹانگوں میں خون کا دباؤ یکسر ختم ہوا تھا۔ سامنے کرسیوں پر بیٹھے لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کچھ نئی جوڑیاں تھیں جو ہنی مون منانے امریکہ جا رہی تھیں جوکہ شاید کسی بیتے لمحا ت کی یاد میں مسکرا رہے تھے۔ اسی طرح انتظار گاہ میں ہر عمر اور ہر قماش کے لوگ موجود تھے، امریکہ جانے کی خوشی میں یہ سب لوگ پھولا نہ سما رہے تھے ،ایک صوفے پر میری بیگم صاحبہ براجماں تھیں اور تو اور یہاں تو میری اپنی بیوی بھی امریکہ جانے کی خوشی میں متبسم تھیں لیکن میرا اپنا مسٗلہ تھا کہ اُن سب کی مسکراہٹیں مجھے زہر معلوم ہو رہی تھیں ایسا لگتا تھا کہ وہ سب میری عبرت ناک انجام کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ میرے ساتھ ایک ۔ بورڈنگ کارڈ کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ اجل کا پیغام ہے ۔ ہمارے بورڈنگ کارڈ چیک ہوئے۔ تمام مسافر جہاز کی طرف ایک قطار میں چل پڑے۔ ہماری تعداد یہی کوئی تین سو کے قریب تھی۔ یہ سب لوگ موت کا مزا چکھنے جا رہے تھے لیکن اُن میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُن کی فلائیٹ کے ساتھ کیسا واقعہ پیش آنے والا ہے۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ کسی بہانے سے واپس ہو جاؤں لیکن بہانہ میرے پاس کوئی نہ تھا ۔ میں جیسے جیسے جہاز سے پیوست سرنگ نما راستے میں سے ہوتے ہوئے آگے قدم بڑھاتا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ آج جہاز کے اندر پائیلٹ کی جگہ ملک الموت بیٹھا میرا انتظار کر رہا ہے۔ ایک خاتون نے ہمیں ویلکم کہا اُس کے ماتھے پرجو مسکراہٹ تھی اُس سے یہ اندازہ لگانا کوئی بہت مشکل نہیں تھا کہ کسی قبرستان سے کوئی چڑیل جہاز پر سوار ہو گئی تھی اور انتہائی مسرت اور شادمانی کے ساتھ ہمیں وادی شہر خاموشاں کی دعوت دے کر ہمارا تازہ خون چوسنا چاہتی تھی ۔ دل کرتا تھا کہ اُسے ایک تھپڑ رسید کروں۔ ہم اپنی سیٹ پر جاکے بیٹھ گئے۔ جہاز کے میزبان نے ہم سے کوئی پانچ گز کے فاصلے پر سامنے کھڑ ے ہو کر ہمیں لیکچر دینا شروع کیا اس لیکچر کے تمام الفاظ نا امیدی اور یاس کے رنگ سے مزئین تھے انہوں نے اعلان کیا کہ خدا ناخواستہ اگر حادثہ پیش آجائے تو مسافروں کو کونسی احتیاطی تدابیر اور اقدامات اپنانے کی ضرورت ہوگی وغیرہ ۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ آخر کیا ضرورت تھی اس طرح کی بد شگونی کی، اللہ مالک ہے کچھ نہیں ہوگا۔ اس میزبان کی موت کے اوپر مفصل تقریر سننے کے بعد ایک نسوانی آواز بلند ہوئی، اس منحوس نے جو سفر کی روایتی دعا کی وہ نشتر بن کر میرے سینے میں چبھ گئی، اس دعا نے ہماری بے وقت موت کی گویا یقین دہانی کروائی ۔ میں نے دل ہی دل میں جہاز والوں کو یہ مشورہ دینا چاہا کہ جہاز والوں کے لچھن درست نہیں ہیں سفر کے دوران حادثات اور اُن سے نمٹنے کے طریقے بتا کے پنڈو مسافروں کے دلوں میں خوف اور ہیجان کرنا اُنہیں جیتے جی زندہ لاش بنانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں لہذا ایسے طریقوں سے باز رہا جائے ۔ میں نے بار بار کوشش کی کہ جاکے ائیر ہوسٹس کا گلہ دباؤں تاکہ وہ ائندہ اس طرح واہیات کا تذکرہ جہاز میں بیٹھے ہوئے ہم جیسے شرفا سے ہر گز نہ کرے اور کیپٹن کو جاکے بولوں کہ سفر میں حوادث کی باتوں سے دل گھبرا جاتا ہے بلکہ اسکی جگہ اپنے ان منھہ پھٹ میزبانوں سے اچھے الفاظ کہلواؤ جیسے: ہمارا جہاز بالکل فٹ ہے، ہم بہت انچائی میں اُڑان نہیں بھریں گے۔ ہم آپ کو ہر صورت میں بہ حفاظت منزل مقصود تک پہنچائیں گے ۔ بیلٹ ویلٹ باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کسی بھی طوفانی موسم کا ہمارے اس جہاز پر اثر نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ پھر دفعتاً مجھے خیال آیا کہ یہ باتیں بتانے کےلئے میرا یکدم اپنی سیٹ سے اُٹھ کر کاک پٹ کے اندر پائلٹ کے پاس جانا تخریب کاری کے زمرے میں آئے گا ۔ جہاز میں بیٹھے ہوئے محافظ کمانڈوز کو کیا معلوم کہ میں ایک زریں مشورہ دینے کاک پیٹ میں جا رہا ہوں، وہ تو پکڑ کے دھلائی کریں گے۔ لہذا خاموش رہا۔ مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی ابھی ہم اڑے نہیں تھے کہ میرے دونوں ہاتھ سن ہو گئے۔ ساتھ سے گزرتی ہوئی ائیر ہوسٹس کو میں سکول کے بچوں کی طرح چھوٹی انگلی کے اشارے سے باتھ روم جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ائیر ہوسٹس میری شکل و صورت اور میری وقت بے وقت کی حرکتوں سے سمجھ گئی تھی کہ اُن کے جہاز میں ایک سہما ہوا اور اَن جانے فضائی خوف کا ستا یا ہوا مسافر بھی موجود ہے، مسکراتے ہوئے باتھ روم کا راستہ بتا دیا۔ اُٹھتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو دوبارہ چیک کیا کہ کیا میرا پاسپورٹ میرے جسم کے ساتھ مظبوطی سے باندھا ہوا ہے تا کہ فضائی حادثے کی صورت میں میری لاش کی شناخت ہو سکے۔ ہمارے جہاز نے رن وے پر فراٹے بھر نا شروع کیا ۔ رن وے میں ایک جگہ ایسی تھی کہ جہاں تھوڑا ر کنے کے بعد جہاز سے ایسی دل دھلا دینے والی آواز نکلنی شروع ہوئی کہ میری زبان سے تین دفعہ ” یا اللہ، یا اللہ، یا اللہ“ کی نداء بے ساختہ طور پر نکلنے لگی میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی سیٹ کے دونوں بازو مظبوطی سے پکڑے ہوئے تھا ۔ میری بیوی نے مسکرا کر مجھے اپنے آپ کو سنبھالنے کو کہا ۔ ۔ اتنے میں ہمارا جہاز فضا میں بلند ہوا غّراتا اور بادلوں کو چیرتا ہوا لپک جھپکنے میں زمیں میں موجود قسم قسم کی روشنیوں سے جھلملاتی بڑی بڑی بلڈنگ کھلونوں کی طرح معلوم ہونے لگیں۔ سکول کے زمانے میں آیت الکرسی یاد کی ہوئی تھی ابھی فر فر یاد آنے لگی۔ چار قل بھی اصل عربی ہجے کے ساتھ یاد آئے۔

نوٹ: یہ مضون میں نے 2016 میں یو -ایس ویزا نہ ملنے پر لکھا تھا ۔ پھر 2018 کو ویزا ملا ۔

Advertisement
Back to top button