تعلیمخبریں

ہوم ورک

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

مجھے حالیہ عید الفطر کی عیدی کے طور پر ایک دوست نے ایک مضمون بھیجا ۔ جسے "ہوم ورک طلبہ کےلیے کیوں ضروری ہے ؟” کے عنوان پر انگریزی زبان میں لکھا گیا تھا ۔ یہ مضمون اوہیو سٹیت یونیورسٹی کولمبس کے دو نامور اساتذہLinda A. Milbourne اور David L. Hauryکی اس موضوع پر تحقیقی عرق ریزی کا نتیجہ تھا ۔ میدان تعلیم میں مجھے آج تک کسی مقالے کو پڑھتے ہوئے اتنا لطف نہیں آیا تھا جتنا اس مضمون کو پڑھ کر محظوظ ہوا ۔ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ لکھاری میری پیشہ وارنہ زندگی پر قلم اُٹھائے ہوئے ہوں ۔
؎ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا میں نے یہ سوچا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا
اگر آپ بھی درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں اور کمرہ جماعت میں پڑھانے کا تجرہ رکھتے ہیں تو اس مضمون کو پڑھنے کے بعد تدریس سے متعلق آپ کے نظریات میں بھی تبدیلی رو نما ہوگی ۔ چونکہ میں ایک مدرّ س ہوں لہذا مضون “ Why is homework important for students” پڑھنے کےبعد میرے بیس سال کے تدریسی تجربے پر پانی پھر گیا ۔شاید آپ کے ساتھ ایسا نہ ہو کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے درس و تدریس کی باریکیوں کا ارادک رکھتے ہوئے کام کیا ہوگا ۔آپ جب اس مضمون پر نظر دوڑائیں گے تو آپ کو ہر تحقیقی جملے پر ایک اور تحقیق کا حوالہ ملے گا جو کہ انٹر نٹ پر دستیاب ہیں ۔ میں نے اس مضمون کے مطالعے کے ساتھ ساتھ تحقیقی حوالوں پر بھی سطحی نظر ثانی کی تو مجھے ماضی کی اپنی تدریس پر غور کرکے یہ اعتراف کرنا پڑا کہ میری تدریس چھلنی میں پانی بھرنے کی مترادف تھِی۔ میری تدریس میں” ہوم ورک”کے ضمن میں بہت ساری خامیاں نظر آئیں جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ بچے قوم کی امانت ہیں اور ہماےتدریسی زاویے میں خفیف سا خم قوم کے کسی فرد کے مستقبل کو تاخت و تاجراج کر سکتا ہے ۔ یوں تو تدریس کے ہزاروں پہلو ہیں جن میں سے ایک” ہوم ورک ” بھی ہے ۔ ہم جب "ہوم ورک” دیتے ہیں تو ہم کن کن غلطیوں کا مرتکب ہوتے ہیں ۔ میں نے ماضی کے جھروکوں سے اپنے آپ کو یوں پایا۔
« میں نے مضمون سے متعلق جو بھی ہاتھ آیا گھر کے کام کے طور پر تفویض کیا :
o میں نے یہ نہیں سوچا کہ جو کام میں دے رہا ہوں اس کا مقصد کیا ہے ؟
o اس سے طلبہ کی کس مہارت کوتقویت ملے گی؟ کیا اس کام سے نقصان کا خدشہ بھی ہے ؟
o جو کام آج میں دے رہا ہوں ۱۰ سال بعد اس کام کا کسی طالب علم کے عملی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟
o جو کام میں دے رہا ہوں اس کام کا دورانیہ کتنا ہونا چاہیے
o اس کام کا اُس مضمون سے جو میں پڑھا رہا ہوں کتنا ربط ہے ؟ مثال کے طور پر اگر انگریزی میں گرائمر کے کسی خاص باب پر کام کر رہا ہوں اور گھر کے کام کے طور پر طلبہ سے تقاضا کرتا / کرتی ہوں کہ حالیہ بارشوں پر ۱۰۰ الفاظ پر مشتمل مضمون لکھ کر لائیں جبکہ میرا تدریسی موضوع” مریخ پر زندگی کے اثرات” ہے تو طلبہ کو دیا جانے والا کام بے ربط ہوگا جو کہ زہر قاتل ہے ۔ ایسی سرگرمیاں کسی اسکول تسلسل سے ہو رہی ہوں تو اُس اسکول کے مخصوص طلبہ عملی زندگی میں بھی سلیقہ مندی کام نہیں کر پائیں گے
« میں نے کبھِی بھی یہ خیال نہیں رکھا ہوگا کہ جو کام میں دے رہا ہوں اس سے طلبہ کی کتنی دلچسپی ہے :
o مثال کے طور پر ایک طالب علم جنون کی حد تک کھیلوں سے دلچسپی رکھتا / تی ہے اور میں نے مشکل الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کرنے کا کام رقص پر مضمون لکھتے ہوئے کرنے کو کہا ہے ۔ اگر میں مشکل الفاظ کو جملوں میں استعمال کےلیے اُن کے پسندیدہ مشاغل پر لکھنے کا تقاضا کیا ہوتا تو میرے مشکل الفاظ سکھانے کا مقصد مکمل ہوجاتا
« طلبہ کو زیادہ کام دینا
o میں نے ہمیشہ یہ سوچا ہے کہ طلبہ کو زیادہ کام دینے سے اُن کے سیکھنے کا عمل تیز ہوتا ہے لیکن یہ ناممکنات میں سے ایک ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ طلبہ کو زیادہ کام دینے سے وہ دوسروں سے کام کروا کے آپ کو باور کرائیں کہ یہ کام اُنہوں نے خود کیا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ آج سے یہی کوئی دس برس قبل میں نے ایک طالب علم کو چھٹیوں کے دوران روزانہ تین ورق خوش خط لکھنے کی سخت تنبیہ کی تھِی کیوں کہ اُس کا خط خراب تھا ۔ چھٹیوں سے واپسی پر میں نے جب اُس کا کام دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیوں کہ اُنہوں نے تو سیدھا سیدھا چھاپ دیا تھا لیکن کام پہلے ورق سے ہی خوبصورت تھا جو کہ ممکن نہیں تھا ۔ مجھے یہ سوچ کرشک ہوا کہ پہلے ورق ہی سے خط اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ دھیرے دھیر تبدیلی رونما ہونی چاہیے ۔ مجھے اس پر تحقیق کا ایک طریقہ سوجھا، میں نے پورے کمرہ جماعت کو ایک اقتباس سنا کر املا لکھنے کی سرگرمی کروائی اور مطلوبہ طالب علم کی تحریر خصوصی طور پر دیکھِی تو اُس کا خط اور بھی بھونڈا نظر آیا ۔ دوسرے دن میں نے اُس بچے کو سکول کنٹین میں چائے پر بلایا پھر جھوٹ بولنے کے موضوع پر ہم نے گفتگو کی، کوئی ۲۰ منٹ کی خوب ہنسی مزاق کے بعد طالب علم نے کہا ” سر ایک بات بتاؤں ؟” میں نے کہا ” جی ہاں ” وہ بولے ” سر کل میں نے گھر کا جو کام آپ کو دکھایا تھا وہ میں نے نہیں لکھا تھا ۔ میں نے جھوٹ بولا تھا” میں نے کہا ” پھر کس نے لکھا تھا؟” بولے ، ” میری بہن نے ” اس کے بعد طالب علم کے ساتھ تفصیلی بات چیت کے بعد یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ در اصل میں نے کام بہت زیادہ دیا تھا ۔ کیوں کہ ایک مہینے کے اندر اُسے دوسرے مضامیں میں بھی کام کرنا تھا ۔ لہذا اُس نے جان چھڑانے کی کوشش کی
« میں نے کبھی بھی طالب علم کے گھر کے کام پر تفصیلی نظر ثانی نہیں کی اور نہ ہی واضح تحریری کمک دہی کی :
o ہم مدرّسین گھر کے کام کو خانہ پوری کے طور پر تفویض کرتے ہیں اور سطحی طور پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور اپنا دستخط ثبت کرکے گویا تمام تدریسی زمہ داریوں سے اپنے آپ کو عہدہ برآ سمجھتے ہیں ۔
o ہم میں سے اکثر گھر کا کام سرسری طورپر چیک کر کے اخر میں Very Good, excellent , Well-done جیسے بامعنی الفاظ کو بے مقصد استعمال کرکے طلبہ کو واپس کرتے ہیں ۔ مجھے کبھی یہ احساس نہیں رہا ہے کہ یہ الفاظ اپنے اندر کتنا جامع مفہوم سموئے ہوئے ہوتے ہیں ۔ میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں نے ان الفاظ کو کس مخصوص خوبی کی تشریح کےلیے استعمال کیا ہوا ہے ۔ ایسے دستخط شدہ کاموں کو بہ نطر غائر دیکھا جائے تو اندر موٹی موٹی غلطیوں کا احتمال نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ گھر کے کام پر توجہ نہیں دیتے
« مجھے یہ توفیق بھی بہت کم ہوئی ہے کہ میں طلبہ کے کام کو غور سے دیکھنے کے بعد اُن کے کام سے لطف اُٹھا ؤں یا اُن کی دل سے حوصلہ افزائی کروں :
o طلبہ کے کام کو غور سے دیکھ کر اُن کی حوصلہ افزائی سے اُن میں کام کا شوق پیدا ہوتا ہے کیوں کہ وہ اپنے لیے سامعین و ناظرین اور قارئین کے انتظار میں ہوتے ہیں جب ہم اُن کے کام کی قدر نہیں کرتے ہیں تو وہ دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں اور گھر کے کام میں اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں کیوں کہ اُن کے کام کو دیکھنے ولا اور اُن کے کام کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
« کسی ایک مضمون میں گھر کے کام کا دوسرے مضامیں سے تعلق کا فقدان
o گھر کا کام طلبہ کو تفویض کرتے ہوئے میں نے کبھی بھی یہ خیال نہیں کیا کہ پاکستان کے تعلیمی نصاب میں پڑھائے جانے والے تمام مضامیں کا ایک دوسرے کے ساتھ گہر اتعلق ہوتا ہے لہذا اگر میںا نگریزی کا معلم / معلمہ ہوں تو مجھے طلبہ کو کام دیتے ہوئے باقی مضامین کی اہمیت کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے
ان کمزوریوں کی فہرست بڑی طولانی ہے ۔ ہم سب مل کر درج بالا کمزوریوں میں سے کسی ایک پر بھی توجہ دیں گے تو نہ صرف ہمارے کام کی قدر بڑھ جائے گی بلکہ ہم ایک ذمہ دار قوم پیدا کرنے میں بھی دنیا کےلیے مثال بنیں گے۔ مختصراً یہ کہ مذکورہ تحقیقی مضمون پڑھنے کےلیے میں تمام اساتذہ کی توجہ چاہتاہوں تاکہ ہم اپنی غلطیوں کا ادارک کرسکیں اور اُن کے حل کےلیے لائحہ عمل تیار کر سکیں ۔

Advertisement
Back to top button