اپر چترالتاریخ اور ادبتعلیمسماجی

گل جی، پرائمری سے ائی ایس ائی/ انفارمیشن افیسر سےدنیا کے اُس پارتک

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

پانچویں قسط میں ہم نے گل جی کی پہلی نوکری الیکشن کمیشن میں اور دوسری نوکری آئی ایس ائی میں کرنے کا ذکر کیا تھا ۔ اب گل جی نے اسے بھی خیر باد کہنے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔ اُسی دوران شیر نوروز صاحب اسلامک یونیورسٹی میں ایک سنئر عہدے پر فائز تھے انہوں نے از راہ معلومات مخبری کی تھی کہ اسلامک یونیورسٹی میں گریڈ 17 کی کچھ اسامیوں کےلیے درخواستیں مطلوب ہیں ۔ یہ بات اس نیت سے نہیں ہوئی تھی کہ گل جی آئی ایس آئی میں اپنی بہترین لازمت چھوڑ کے اسلامک یونیورسٹی کی طرف آجائے ۔ گل جی کی ایک عادت جو اُن کی طبیعت سے میں نے اخذ کی ہے وہ یہ کہ موصوف لوگوں کے مشورے غور سے سنتا ہے اور فیصلہ اپنا ہی کرتا ہے البتہ زندگی میں بہت کم مشورے ایسے تھے جنہیں گل جی نے بلا تامل قبول کیا تھا ۔ گل جی نے درخواست جمع کرنے کی ٹھانی ۔ شیر نوروز نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ فوج کے ساتھ ایک بہترین ملازمت کہ جہاں ہر قسم کی سہولہات موجود ہیں ، چھوڑنے کا ارادہ درست نہیں لیکن شیر نوروز کا یہ مشورہ گل جی کے ایک کان سے ٹکرا کر دوسرے کان سے کب کا نکل چکا تھا ۔ بہر حال گل نے درخواست جمع کی لیکن شیر نوروز کو گل کی اس خود ساختہ حرکت کی کانوں کان خبر نہ ہوئی ۔ بلاوا آگیا ۔ اُس زمانے میں اِس شعبے کا صدر ایک عربی نژاد عالم و فاضل آدمی ہوا کرتے تھے لیکن انٹرویو پینل کی سرپرستی دعوت اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل محمود احمد غازی کے سپرد تھی ۔ محمود احمد غازی کے علم و فن کا عالم یہ تھا کئی ایک اُردو اور انگریزی زبانوں میں کتابیں تصنیف کی تھیں۔ اُردو اُن کی مادری زبان تھی ، انگریزی ،عربی ، فارسی اور ترکی وغیرہ زبانوں پر گرفت مظبوط تھی ۔ ایم اے غازی نے لکھنوی اُردو میں سوالات کی بوچھاڑ کردی ۔ گل جی کو ایف اے میں دو مضامین میں فیل ہونے کے بعد کتابیں پڑھنے کی عادت ایس ایم کالج کراچی سے ہوئی تھی ۔ فوجی لائبیری میں ملازمت کے دوران انہوں نے محمود صاحب کی بھی کئی تصانیف ک سر سری مطالعہ کیا ہوا تھا یوں ایم اے غازی کے مزاج اور اُن کے علمی رویوں کا پہلے سے پتا تھا ۔ یوں یہ انٹریوو مشکل لیکن مثبت رہا تھا ۔ اس انٹرویو و کےلیے امید واروں کی درخواستوں کی چھان بین کے بعد 16 اُمید وار تین اسامیوں کےلیے انٹر ویو کے دنگل میں اترے تھے جن میں گل جی بھی شامل تھے ۔انٹرویو ہوگیا اور گل جی نے شیر نوروز کوبتایا کہ انہوں نے انٹر ویو دیا ہے ۔ شیر نوروز کو بڑی حیرت ہوئی کہ اتنا کچھ سمجھانے کے باوجود بھی یہ کیسا آدمی ہے کہ ایک بہترین ملازمت چھوڑ کر عام ملازمت کےلیے تیار ہے ۔ شیر نوروز نے دوبارہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ دیکھو اس وقت جو نوکری آپ کر رہے ہو وہ اُس سے بہت بہتر ہے جس کے لیے اب آپ نے انٹرویو دیا ہے ۔ گل جی توجہ سے اپنے مخلص دوست شیر نوروز کی گفتگو سنتا رہا اور کوئی جواب نہ دیا ۔ اس کے ٹھیک ایک مہینے بعد شیر نوروز گل کے پاس آئے اور زوردار قہقہے لگاتے ہوے کہا ’’ بھائی جن سولہ لوگوں نے انٹر ویو دیا تھا اُن میںسے تین کا انتخاب ہوا ہے اور تمہارا نام سر فہرست ہے ‘‘ شیر نوروز نے دوبارہ ایک مخلص مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دونوں ملازمتیں گریڈ 17 کی ہیں لیکن تمہاری موجودہ ملازمت کئی حوالوں سے بہتر ہے۔ اب بھی تمہارے پاس سوچنے کا وقت ہے ۔ ادھرگل جی کو لت پڑی ہوئی تھی کہ زندگی میں نیے سے نیا کر کے دکھایا جائے ۔ گل جی کو یاں بھی ساتھ دنوں کے اندر اندر ملازمت قبول یا رد کرنے کا مراسلہ موصول ہوا ۔ آئی ایس آئی سے استعفیٰ دینا ایک بار گرا ں تھا ۔ استعفی ٰ لکھ کے داخل دفتر کیا لیکن ملازمت چھوڑنے کی توجیہ کےلیے دوبارہ انٹر ویو کا تھکا دینے والاسلسلہ شروع ہوا ۔ مختلف افسروں کے پاس پیش ہونا پڑا آخر میں دوبارہ حمید گل کے دربار میں پیش ہوئے ۔ گل جی کا وہی بے خطر انداز جو ملازمت کے انٹرویو کےلیے جاتے ہوئے اپنایا تھا اور حمید گل کا وہی تعظیم و تسلیمات ۔ ’’ گل امان صاحب ہمیں چھوڑنے کی وجہ ‘‘ حمید گل کا ایک ہی مختصر سوال تھا اور گل جی کا ایک ہی مختصر جواب’’ سر میں نے اس ملازمت سے بہت لطف اٹھایااب کہیں اور جانے کا سوچ رہا ہوں ‘‘ حمید گل چونکہ بہت سیانا آدمی تھے اُنہیں سب کچھ سمجھ آیا البتہ حمید گل نے ایک مشفقانہ جملہ یہ ضرور کہا کہ مسٹر گل امان آپ ایک بہترین پیشہ وار ہو ہم آپ کو مزید مراعات دینے کےلیے تیار ہیں لیکن چونکہ آپ ہر حال میں ملازمت چھوڑنے کےلیے تیار ہیں لہذا ہماری تمام نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں آپ جہاں بھی جائیں گے ہمیں یہ اُمید واثق ہے کہ آپ اپنی ذہنی قابلیت بروئے کار لاتے ہوئے قوم کے لیے علمی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھیں گے ۔ گل جی نے حمید گل کا شکریہ ادا کیا اور ایک کپ چائے کے ساتھ حمید گل کے دفتر سے رخصت ہوئے ۔ اپنی پیشہ وانہ زندگی کے بہترین شب و روز 14 سالوں تک اسلامک یونیورسٹی میں گزارے ۔ اُس دوران کتابوں سے اتنی دوستی ہو گئی تھی کہ لکھت پڑھت پر طبیعت آگئی تھی ۔ انگریزی اور اردو دونوں پر اپنا مافی الضمیر تحریری صورت میں دوسروں تک پہنچانے کے گُر آنے لگے تھے ۔ اُردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں کالم اور مضمون نگاری کا مشغلہ اپنایا ۔ پہلا ارٹیکل پاکستان کے مشہور انگریزی روزنامہ "The frontier post” میں جولائی 1997 کو "The pioneer of Freedom” کے موضوع پر لکھا جس کی بڑی پذیرائی ہوئی ۔

جس میں انہوں نے تحریک پاکستان کی بانیوں کی خدمات پر قلم اٹھایا تھا ۔ اس کے بعد مختلف قومی اخبارت نے گل جی سے رابطہ کیا اور مضامیں لکھنے کا تقاضا کیا ۔ گل کا پہلا اُردو مضمون روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ میں ’’ شمالی علاوہ جات کی آئینی، قانونی اور سیاسی حیثیت ‘‘ چھپا ۔ اس کے بعد مختلف اخبارات میں مختلف موضوعات پر لکھتے اور داد و تحسین قارئین سے حاصل کرتے رہے ۔ آئی ایس آئی میں رہتے ہوئے شاید اتنی آزادی سے کام کرنا ممکن نہ تھا ۔ گل جی ایک ایسے شخص کا نام ہے وہ حجاب در حجاب ہے ۔ جنتا آپ کریدو گے اُتنا خزانہ ملے گا ۔ یہ ملازمت درست نہج پر استوار تھی لیکن معاً یہ ملازمت بھی چھوڑ دی ۔
( گل جی نے پاکستان کیوں چھوڑا اور پھر بھی اپنے ملک سے کتنی محبت کرتے ہیں ؟ یہ بھی ایک دلچسپ قصہ ہے ۔ ساتویں قسط کا انتظار کیجیے )

Advertisement
Back to top button