اپر چترالتاریخ اور ادبخبریںسیاست

”سردار حسین شاہ، جن یا انس“ ( پانچویں قسط)

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

 

چوتھی قسط میں بات یہاں تک پہنچی تھی کہ ایک چاندنی رات کو دریا کے کنارے جنگل میں بیٹھے سردار صاحب کی روحوں سے مڈبھیڑ ہوئی تھی ۔ روحوں اور جن پریوں سے بہ دست و گریبان ہونا سردار صاحب کو وراثت میں ملی ہے ۔ اُن کے پر دادا بڑے نامی گرامی بزرگ تھے ۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ چترال میں فوت ہوئے ، سنوغر میں آسودہ خاک ہوئے مگر دوسرے دن لوٹ کوہ کے راستے افغانستان جاتے ہوئے نہ صرف دیکھے گئے بلکہ پیر صاحب نے ایک سیب بھی راستے میں ملنے والے راہگیر کو تھما کر مہتر چترال کے حضور پیش کرنے کو کہا ۔ سردار کے پر دادا کے افغانستان جانے کی خبر کو جھوٹی گردان کر راہگیر کی سرزنش کرنا اور سیب کو پھینکنا ، ایک الگ اور طویل موضوع ہے۔ مختصر یہ کہ مہتر نے سنوغر میں اُس بزرگ کی قبر کی نظر ثانی کےلیے سرکاری سپاہی روانہ کئے ۔ سپاہیوں نے قبر کا معائینہ کیا تو قبر کھلی پڑی تھی ۔ وہ اپنی جگہ سندل کی ایک خوشبودار لکڑی کفن میں لپیٹے خود غائب ہوئے تھے اُس وقت سے ان کے پر دادا کو ” زندہ پیر ” لقب ملا اور اُن کی اولاد کو زندہ پیر کی نسل کہا جاتا ہے ۔ اس نسل کا ہر آدمی الٹا سیدھا کام کرتا ہے ۔ ( یہ نہیں معلو م کہ اس واقعے میں کتنی صداقت ہے بہر حال یہ واقعہ چترال میں زبان زدِ خاص و عام ہے )زندہ پیر کی نسل میں سردار صاحب کو کئی ایک کشف و کرامات ودیعت ہوئی ہیں ۔

بادی النظر میں سردار حسین ایک عام آدمی معلوم ہوگا ۔ بر محل مغلظات کے چناؤ میں اتنا یکتا ہیں کہ زبان سے نکلا ہر کلمہ تیر بہ ہدف ہوتا ہے ۔ گالی کھانے والا ایک مرتبہ آپ کی زبان سے گالی کھائے تو زندگی بھر زبان چاٹتا رہے ۔ اُن کی زبان سے گالی کھانے کے بعد کئی ایک جسمانی اعضا کا راز انسان پر افشا ہوتا ہے کہ جنکے نام اور کام سے آج تک ہم لا علم تھے ۔ گالی دیتے ہوئے خفیہ مقامات کے ٹکڑے ٹکڑوں کا نام لیتا ہے لیکن اندر کا سردار یکسر مختلف ہے ، بے حد ملائم اور رحمدل ۔ آپ کسی بھی چیز کے بارے میں اُس وقت تک حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے جب تک کہ آپ اُسے قریب سے معائینہ نہ کر پائیں ۔ آپ اگر اُنہیں اپنے لئے خاک میں مل کے خاک دیکھنا چاہتے ہیں تو اُن کی میزبانی کا شرف حاصل کیجیے پھر دیکھ لیجئے کہ سردار کون ہیں ۔ آپ اگر اُن کے ساتھ محفل میں شریک ہیں تو تو ذار محتاط رہیے زیادہ شیخیاں بکھیرنے سے احتراز کریں کیوں کہ وہ کسی بھی وقت آپ کی بولتی بند کر سکتا ہے ۔ لیکن آپ کی غیر موجود گی میں کہیں کسی محفل میں اگرآپ کا تذکر ہ ہو رہا ہو تو وہ آپ کو دنیا کا سب سے قابل ترین ، سب سے معزز اورسب سے اعلی و ارفع انسان بنا کر پیش کریگا یہاں تک کہ شرکائے محفل آپ سے ملاقات کے لیے بے چین رہیں گے ۔ ہم ان کی شوخیوں کی بہت ساری کہانیاں آپ کو بتائیں گے ۔ 

سرِ دست میرے ذہن میں ایک غیر مرئی مخلوق کو بلتستان ضلع گانچھے کا صدر مقام خپلو میں دریائے شیوق کے کنارے ایک آسیب زدہ جگہ جسکا نام مقامی زبان میں آسیب زدہ ہونے کی وجہ سے ( قپقون ) رکھا گیا ہے، میں رات کے 12 بجے ایک قد ادم جن کو اُتار کر اس کی نہ صرف سرزنش بلکہ ہمیشہ کےلئے قید کرنے کا حکم صادر کرنے پر جن کی طرف سے رحم کی اپیل کی کہانی شیخ جہانگیر کی زبانی بڑی مشہور ہے ۔ خپلو میں شیخ جہانگیر نام کی ایک علمی و دینی شخصیت رہتی ہیں جنہوں نے ایران سے دینی تعلیم حاصل کی ہے اور دنیاوی تعلیم میں بھی فاضل کی سند رکھتے ہیں ۔ اُن کا خیال تھا کہ جن ، پری وغیرہ کا وجود ہوتا ہوگا لیکن وہ جسم کثیف میں نظر نہیں آئیں گے ۔ شیخ جہانگیر صاحب در اصل جنات پر تحقیق کا بڑا شوق رکھتے ہیں ۔ آج سے تقریباً کوئی 6 سال پہلے خپلو سے آگے کسی گاؤں کےلیے بجلی گھر کے سامان آئے اور ذمہ دار ادارے نے تمام مشینیں اور متعلقہ پرزہ جات و اوزار اسی قپقون میں اُتار ا مگر رات کو پہرہ داری کےلئے لوگ نہیں ملے کیوں کہ علاقے میں کوئی مائی کا لال ایسا نہیں تھا جو چند پیسوں کے عوض اپنی جان جوکھوں میں ڈالے اور چڑیلوں کی ضیافت بنے ۔ یاد رہے کہ خپلو کی تاریخ میں یہ جگہ جنات کا مشہور مسکن رہا ہے ( آجکل ٹھیک اُسی جگہ ایک پبلیک پارک تعمیر ہو رہا ہے ) ۔

شیخ جہانگیر نے جنات پر تحقیق کےلئے اس موقع کو غنیمت جانا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ راتوں کو قپقون جاکر صبح تک سامان کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائے گا ۔ اُنہوں نے دریائے شیوق کے کنارے سنسان قپقون میں راتیں گزارنی شروع کی ۔ وہ اپنے گھر سے کھانہ بناکر ہر شام ر وانہ ہوتے اور رات کو کھانہ کھاکے برتن ساتھ میں ابلتے چشمے میں صاف کرتے اور پینے کے لئے پانی لیکر واپس اپنے ٹنٹ میں اگر سولر بلب کی روشنی میں مطالعہ کرتے اور دیر سے سوتے ۔ یہی معمول تھا ۔ کئی دن گزرے شیخ جہانگیر کو کوئی چیز نظر نہ آئی لیکن ایک دن ۔۔۔۔۔۔۔۔ معمول کی طرح کھانہ کھانے کے بعد چشمے کے پانی سے برتن مانجھے اور پلاسٹک کے جگ میں پانی بھر کے اپنے خیمے کی جانب آرہے تھے کہ اُن کے پاس ایک بچے کی بلک بلک کر رونے کی آواز آئی ۔ اُنہوں نے جیسے ہی مڑ کر دیکھنے کی کوشش کی تو اُنہیں ایک زوردار جھٹکا سا لگا ، اُن کے ہاتھ سے پلیٹ اور پانی سے بھرا جگ ایک ساتھ گر کر پاش پاش ہوگئے ۔ شیخ صاحب نے برتنوں کے ٹکڑے اٹھائے اور خیمے کی راہ لی ۔ معمول کی نیند سوئے ۔ شیخ صاحب صبح سویرے سردار صاحب کے پاس گئے ، را ت کی کہا نی سنائی تو سردار نے کہا کہ آج شام کے بعد تم وہاں جانا اور میں تھوڑی دیر بعد آ جاؤں گا اور دیکھتا ہوں کہ تیرے ساتھ کیا ماجرا ہوا ہے ۔ شیخ جی معمول کی طرح شام کو کھانہ لیکر اپنے خیمے کی طرف گیے ۔ سردار صاحب رات 12 بجے ایک سرکاری گاڑی اور سرکاری ڈرائیو ساتھ لیکر اپنی شریک حیات کنیز کائے بیٹی آئمہ اور بیٹا ناد علیٰ دفکو لیکر قپقون میں حاضر ہوئے ۔ شیخ جہانگیر اپنی زبانی یہ کہانی سناتے ہوئے خود بھی کانپنے لگتے ہیں ۔  

              (جاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقی قسط نمبر 6 میں ملاحظہ فرمایئے )

چوتھی قسط کے لیے یہاںکلک کیجے 

https://www.facebook.com/photo/?fbid=5989760971041237&set=pcb.5989762494374418&__cft__[0]=AZX8pN7YCpcX0-wrQViSIRHuE_5-9mpFd-pY-NvK5TK4H-iITvuiFXLlqnfIK7O202lpO2oOrVG7SRMSejLlSqODNlz9R9vVoBinQN5DxgXo_JaX0-gDi0dZfjygDFyLSZrBh49Ila33mh8dO6QvY-r0nA7PQclcLstAR_DVCeWIhg&__tn__=*bH-R

تیسری قسط کے لئے یہاں کلک کیجئے 

https://www.facebook.com/photo/?fbid=5960575863959748&set=a.100476063303120&__cft__[0]=AZXOdj6bel66km6s1dT1OsV7pp-lj0zo8rQojoYOpbTBILfX64r5ozP0La9f1x6c0DeBWsKyGP-CaspxE49xRbD6n0fKhrFNrrM-m5tLb-FYMdCzpwUkOLFX0jl0YwmcgSA&__tn__=EH-R

دوسری قسط کےلئے یہاں کلک کیجیے

https://www.facebook.com/shams.glt/posts/pfbid0f7UL85dE2SQ3VxyQRrkategTKSqDNKQQ27He9PjG2qDsKzWaPyrWKhUJSLybn5f4l

پہلی قسط کےلئے یہاں کلک کیجیے

https://www.facebook.com/100000221791699/videos/5091725584237138/

Advertisement
Back to top button