کالم نگار

سر شیر ولی خان اسیر صاحب کے ساتھ مختصر نشست اور بھولی یادیں

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

 

استاد کتنی پیاری اور سب پہ بھاری شخسیت ہوتی ہے آپ کو اس کا اندازہ تب ہوگا جب سکول ، کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد زندگی کے بکھیڑوں میں اُلجھے ہوں اور کہیں اتفاق سے بچپن کا کوئی استاد آپ کو ملے ۔ یہ وہ عظیم لمحہ ہوتا ہے کہ جب عشروں کے اُس پار کی زندگی اور سکول میں بیتے تمام لمحات زندہ ہوتے ہیں ۔

   

آج سر شیر والی خان اسیرؔ صاحب سے گلگت میں ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے پچھلے دنوں ٹٰیلی فون پر اپنے گلگت آمد اور مجھے شرف ملاقات سے نوازنے کےلیے میرے گھر تشریف لانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا جو کہ ناچیز پر آپ کا بڑا احسان تھا ۔ مجھے معلوم ہے انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں کو علم کے نور سے منوّر کیا ہوگا اور یوں اُن بہت سوں کی قطار میں اُن کے دل میں اپنا مقام دیکھ کر اپنے آپ پر فخرمحسوس ہونے لگا کہ دیکھ بھائی تو کتنا عظیم آدمی ہے کہ تیرے استاد نے تجھے یاد فرمایا ہے ۔ میں نے آداب بجا لانے کے بعد سر سے درخواست کی کہ وہ تکلّف نہ فرمائیں بلکہ میں اُن کی رہائش گاہ حاضر ہو کر دست بوسی کا شرف حاصل کروں گا۔

   

 شیر ولی خان اسیر صاحب کے ساتھ ایک استاد اور شاگرد کے رشتے کے علاوہ بھی بے شمار خاندانی رشتے ہیں لیکن مجھ پر بھاری رشتہ اولذکر ہی رہا ہے کیوں کہ ہم نے آپ کا وہ پیشہ وارانہ کھرا پن دیکھا ہےکہ سچائی اور حق کے سامنے سر تا پا سر تسلیم خم کیے رکھتے تھے اور باطل کو جوتی کی نوک پر رکھتے ۔ پیشے کے اعتبار سے اُن سے زیادہ پابند نظم و ضبط آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔ اپنے زمانے کا کیا شاندار اور جاذب نظر آدمی تھے۔ بعض خاص موقعوں پر صبح کی اسمبلی میں تشریف لاتے تو طویل قد کاٹھ پر کوٹ ، پتلوں اور ٹائی کی سجاوٹ صبح کی اسمبلی پر قامیت بر پا کیا کرتی ۔ میں نے بہت بعد میں جب خود ٹیچنگ شروع کی تو پیشہ وارانہ کتابوں کی ورق گرانی سے معلوم ہوا کہ ایک پیشہ وارانہ مُدرس کےلئے لباس کتنی اہمیت کا حامل ہے ۔ میں یہاں پر 1980 کی دہائی کا ذکر کر رہا ہوں جب شیر ولی خان اسیرؔ صاحب ہائی سکول بونی میں ہیڈ ماسٹر تھے ۔آج جب آپ سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی تو وہ ہی پرانے میلے یاد آئے جو آج سے 30 سال قبل گزرے تھے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ سربڑی اچھی صحت سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہم جب ملے تو ہماری گفتگو کا آغاز پرانے زمانے کی دیسی خوراک اور پوشاک کے علاوہ حال ہی میں جیو ٹیلی وژن پر گلگت میں پینے کے پانی کے اندر زہریلے اثرات کے انکشاف سے ہوا اور مثبت سوچ کے انسانی زندگی اورانسانی روح پر مثب اثرات پر ہم نے گفتگو سمیٹی ۔

سوال یہ ہے کہGEO ٹیلی وژن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کئی ایک شہروں کےعلاوہ گلگت کے پانی میں زہریلے اثرات اگر موجود ہیں تو ورلڈ ہیلتھ ارگینائزیشن اور صحت کے دیگر سرکاری و نجی ادارے تحقیق کیوں نہیں کرتے ؟ یہ سوال بہت معنی خیز تھا لیکن اپنے سوال کا خود جواب دیتے ہوئے شیر ولی خان اسیرؔ نے فرمایا کہ شاید یہ مختلف تجارتی کمپنیوں کی آپس کی معاشی سرگوشیوں کا نتیجہ ہو بصورت دیگر اگر گلگت کے پانی میں زہریلے اثرات موجود ہوتے تو آج گلگت کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ اس وقت گلگت کے اندر شرح اموات یا شرح امراض اتنی کم ہے کہ یہاں کے لوگ دنیا کے صحت مند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ باتوں سے باتیں نکلتی گئیں اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ انسان کی سوچ مثبت ہو تو انسان کی زندگی اور روح دونوں ترو تازہ رہتی ہیں ۔ جسے ہم مثبت سوچ کہتے ہیں اُسے علامہ اقبالرح نے خودی کہا ہے ۔ فرماتے ہیں 

؎ ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی بہت ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button