اپر چترالتعلیمچترالیوں کی کامیابیسماجی

گل جی ، پرائمری سے ائی ایس ائی / انفارمیشن افیسر سے دنیا کے اُس پار تک

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

تیسری قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ گل جی اپنے ابو کے ساتھ چترال کے ایک ہوٹل میں اخبار پر رکھی روٹیاں کھاتے ہوئے اُسی اخبار میں ایک اشتہار دیکھا تھا ۔ جس میں لکھا ہوا تھا کہ الیکش کمیشن میں افیسر پوسٹ پر ایک اسامی خالی ہے جس کےلیے اہلیت لائبریری اینڈ سائنس انفارمیشن میں سند یافتہ ہونا شرط ہے ۔ موصوف کے ذہن کے دریچے سے یونیورسٹی کا پہلا دن اور خوش محمد سے ملاقات اور اُن کی مسکرہٹ کا انوکھا انداز ٹکرا گیا ۔ گل جی نے معاً اپنے والد سے کہا کہ بابا جی میں اسلام آباد جارہا ہوں ، مجھے ملازمت مل گئی ہے ۔ والد صاحب متحیر نگاہوں سے بیٹے کی طرف دیکھنے لگا ۔ گل جی نے کہا بابا جی اس میں اچنبھے کی کو نسی بات ہے آپ اور والدہ ماجدہ کی دُعائیں جو میرے ساتھ ہیں ۔ گل کے سفری بیگ میں والد محترم اور والدہ محترمہ سے تصدیق کردہ تمام سرٹیفیکیٹس اور ایک جوڑا سفاری سوٹ پہلے سے موجود تھے ۔ اُدھر درخواستیں جمع کرنے کی آخری تاریخ کے لیے صرف دو دن باقی تھے ۔ اب تھوڑی سی توقف بھی گل جی کی ملازمت کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی ۔ گل جی نے وقت کا ناپ تول کیا اور اُسی وقت بس پکڑی، اسی شام کو دیر پہنچے یہاں رات گزارنے کے بعد دوسری شام کو اسلام اباد پہنچے ۔صبح درخواست جمع کروانے کی آخری تاریخ تھی تو گل جی بٖغیر کسی درخواست کے اپنا سفری بیگ لیے الیکشن کمیشن افس کی طرف ورانہ ہوئے ۔ صبح کے ٹھیک نو بجے نوجوان گل جی داڑھی مونچھیں خوب منڈوا کر سفاری سوٹ زیب تن کیے بے خطر الیکشن کمیشن آفس میں داخل ہوئے ۔ استقبالیہ میں ڈیوٹی پر مامور شخص گل جی کی جاذب نظر شخصیت کو دیکھتے ہی اپنی سیٹ سے کھڑے ہوئے اور سر ،سر کی رٹ لگاتے ہوئے تپاک سے ملے اور دفتر تشریف آوری کی علت دریافت کی ۔ گل نے کہا کہ مجھے سیکرٹری ایس ایم کاظم سے ملنا ہے ۔ اس جملے پر رسپشنسٹ کا شک یقین میں بدل گیا کہ یہ شخص کسی بڑے عہدے پر فائز ہوں گے جو سیکرٹری سے بغیر اجازت کے ملنا چاہتے ہیں ۔ انہوں نے فوراً فون پر سیکرٹری صاحب کو بتایا کہ گل جی نام کے کوئی مہمان ہیں جو ملنا چاہتے ہیں ۔ سیکرٹری نے اپنے پی ۔اے سے شاید یہ پوچھا تھا کہ جو مہمان آیاہے کیا اُس نے ملنے کےلیے پہلے سے وقت لے رکھا تھا ؟ ’’رسپشنسٹ نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا ، میں نے کہا جی ہاں سیکرٹری صاحب سے میری بات ہوئی ہے ‘‘ سیکٹری صاحب کو اطلاع دی گئی کہ جو مہمان آئے ہیں اُن کی پہلے ہی آپ سے بات ہو چکی ہے ۔ سیکرٹری ایس ایم کاظم نے مہمان سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔ سوٹید بوٹیڈ گل جی جیسے ہی سیکرٹری کے لش پش آف میں داخل ہوئے ۔ کشادہ کمرہ تھا جس میں دونوں طرف صوفے اور کرسیاں لگی ہوئی تھی آگے کرسی پر ایک فربہ اندام مگر بے حد خوش باش آدمی بیٹھا ہوا تھا جو کہ الیکن کمیشن کا سیکرٹری ایم ایم کاظم تھے ۔ اپنے اجنبی مہمان کی آمد پر سیکرٹری صاحب بھی اپنی سیٹ سے احتراماً اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ گل جی نے فوراً اپنا تعارف اور ملنے کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا ’’ سر میرا نام گل جی ہے ۔ میرا تعلق چترال سے ہے اور میں نے ایجوکیشن کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی ہے ‘‘ اس کے بعد گل جی نے پلاسٹکی لباس میں ملبوس اپنی تمام اسناد سلیقے سے بیگ سے نکال کر سیکرٹری کی طرف بڑھاتے اپنی ساری سرگشت سنادی اور کہا کہ وقت کی تنگ دامنی کی وجہ سے میں نے کوئی درخواست نہیں لکھی اور بلا واسطہ آپ کے دربار میں آپ کے روبرو حاضر ہوں ۔ سیکرٹری صاحب نے ایک نظر گل کی طرف اور ایک نظر اُن کی سرٹیفیکیس پر دوڑاتے ہوئے کہا’’ ہم نے سنا تھا چترال کے لوگ سلیقہ مند ہوتے ہیں اور آپ نے جس انداز سے اپنی ضروری اسناد و دستاویزات حفاظت سے سجا کے رکھا ہوا ہے یہ اُس قوم کی تہذیب یافتہ اور ذمہ دار ہونے کی بہترین دلیل ہے ، Excellent job man ! ۔ ‘‘ گل جی سے ہلکے پھلکے انداز میں بات چیت ہوئی جس میں اُن کے علمی سفر اور لائبریری اورانفارمیشن کے حوالے سے وہ سوالات پوچھے گیے جن کی اُس ادارے کوضرورت تھی اور وہ تمام سوالات گل جی کے مضمون کے حوالے سے بنیادی سوالات تھے ۔ اس نشست کے فوراً بعد سیکرٹری صاحب نے سیکش افیسر کو بلا کر کہا کہ اب تک جتنی بھی اپلیکیشن اور سی وی آئی ہیں وہ سب مجھے دکھائیں ۔ یوں درخواستوں کا دفتر کھلا ۔ تمام امید واروں کی تعلیمی قابلیت کی داستا نوں کی بہ نظر غائر چھان بین ہوئی ۔ سیکرٹری نے سیکش آفیسر سے کہا ’’ دیکھو یہ نوجواں چترال سے آیا ہے اور کاغذ کا یہ ٹکڑا جس پر ہمارا اشتہار کھانہ کھاتے ہوئے روٹیوں کے نیچے اِنہیں ملا تھا اور بندہ وہی اشتہار لیکر میلوں کی لمبی مسافت طے کر کے یہاں پہنچا ہے ہمیں ایسے ہی محنتی اور مشقت پسند لوگوں کو ضرورت ہے ۔ ان کا میں نے انٹر ویو لیا ہے ۔ ان کےلیے ابھی سے اپوائنٹمنٹ لیٹر ٹائپ کرواؤ اور باقیوں کا انٹر ویو بعد میں ہوگا ۔ سکرٹری صاحب بڑے احترام سے گل سے دوبارہ بغل گیر ہوکر اُسے مبارکبادی کہ اُس کی تقرری الیکشن کمیشن کی لائبیری میں لائبریری اینڈ انفارمیشن افسر کے طور پر ہوئی تھی ۔ دوبارہ شاباش دی اور رخصت کیا یہ 1988 کی بات تھی ۔ گل جی صاحب دو سال تک الیکشن کمیشن کے ساتھ منسلک رہے ۔ گل جی چونکہ شروع سے ٹکنے والا آدمی نہیں تھا۔ یہاں ڈوبنا ادھر نکلنا اُن کی فطرت میں شامل تھا ۔ اب کی بار انہوں نے پاکستان کے ایک بہترین خفیہ ادارے میں ملازمت کےلیے حمید گل کے رو برو ہونا تھا۔
(یہ دلچسپ کہانی ہم آپ کو پانچویں قسط میں بتائیں گے انتظار کیجیے گا)

Advertisement
Back to top button