اپر چترالتاریخ اور ادبکالم نگار

ایک دو جملے میتار باک کی 19 ویں برسی پر

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

 

بونی کی مشہور شخصیت میتار باک یا آدم زادہ کا اصل نام بلبل تاج تھا(1912 تا 22 اگست 2002) ۔ دادا جی کی پیدائش کا سال 1912 قیاس کیا جاتا ہے کیوں کہ دادا جی خود فرماتے تھے کہ 1918 میں ہسپانیہ سے پھیلنے والی متعدی وباء 1919 میں جب جنوبی چترال پہنچی تو یہ جملہ زبان زدِ خاص و عام ہوا ” بریک سنگورا ہائے” ۔ دادا بتاتے تھے کہ گاؤں میں مرنے کی شرح اتنی بڑھی کہ تجہیزو تکفین کے لئے انسانوں کا قحط سا پڑگیا تھا۔ اُدھر گاؤں، محلّہ سب سنسان ہے، ایک ہو کاسا عالم ہے ،بیماری کے خوف سے سہمے ہوئے لوگ ااپنی باری کے انتظار میں اپنے اوسان خطاء کئے بیٹھے ہیں اور اِدھر ہٹا کھٹا اور زندگی کے غموں سےیکسر آزاد بچہ ( بعد کا آدم زادہ اور میتار باک) بستر مرگ پر زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑے ماں باپ کےلئے پھوشپاک ٹِکی بنارہا ہے (ہنگامی طورپر خوراک کی ضرورت کو پوری کرنے کےلیے گوندھے ہوئے آٹے کی خمیر کو تازہ تازہ اٹھاکر گرما گرم راکھ کے نیچے رکھ کر اوپر چنگاریاں رکھی جاتی ہیں جسے کھانے سے خوراک کی فوری ضرورت پوری ہو جاتی ہے جسے کھوار میں "پھوشپاک” کہتے ہیں ) ۔اپنی عمر کے بارے میں آپ فرماتے تھے کہ وباء کے دنوں آپ یہی کوئی سات سال کی عمر کا نونہال تھے ۔

 

  داد جی میتار باک کے نام سے مشہور کیوں ہوئے ؟ اس نام کی وجہ تسمیہ کے بابت گاؤں کے مُعمّرلوگ کہتے ہیں کہ دراصل اُن کے والد زرعالم تاج (مرحوم )کو گاؤں کے باسیوں نے اس نام سے ملقب کیا تھا ۔ میں نے خود دادا جی سے سنا تھا کہ اُن کے والد زرعالم تاج معاشی طور پر متمّون اگر چہ نہیں تھے تاہم اپنے آپ کو مہتر چترال کا مد مقابل سمجھتے ہوئے ریاست کے اندر ایک چھوٹی سی ریاست بنائی ہوئی تھی جس میں اُس نے گاؤں کے چیدہ چیدہ لوگوں کا ایک مجلس شوریٰ بنایا ہوا تھا اور خود ، خود ساختہ، حکمران بن کر علامتی طور پر مہتر چترال کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہم اگرچاہیں تو اپنے لیے الگ ریاست بھی بنا سکتے ہیں ۔ دربار سجتا ، عوام آتے اور لوگوں کے مسائل مقامی طور پر سنے جاتے ۔ ایک باغی سا آدمی تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ گاؤں کے لوگوں نے میتارباک کا لقب دیا جو کہ منتقل ہوکر میرے دادا اور دادا کے بھائیوں تک پہنچا ۔ اسی نسبت سے آجکل ہمارے محلے کوبھی ” میتارباکان دور” کہتے ہیں ۔

    دادا جی کو گاؤں اورگاؤں سے باہر کے لوگ "آدم زادہ ” کے نام سے جانتے تھے ۔ لفظ "آدم زادہ ” کھوار زبان میں اُن لوگوں کےلیے مخصوص ہے جنہوں نے عزت دیکر عزت کمانے کے فلسفے کو سمجھا اور عزت کمائی ۔ یہ یقیناً بہت بڑا اور اعزازی لقب تھا جوگاؤں کے لوگوں نے آپ کے مثالی کردار اور خدمات کے عوض آپ کو دیا تھا یہ لقب اُنہی کے ساتھ منسوب رہا ۔ سوال یہ ہے کہ یہ لقب کیوں کر ایک ٹھیٹھ اَن پڑھ آدمی کو دیا گیا تھا ؟ گاؤں کے معتبر اورمُعّمر لوگ کہتے ہیں کہ 1900ء کے اوائل میں علاقے میں غربت اتنی تھی کہ انسان امراض سے زیادہ افلاس اور غربت و تنگدستی کے ہاتھوں مر جاتا تھا ۔ صاحب و محتاج و غنی سب ایک تھے ۔ غربت کی حد یہ تھی کسی کے گھر میں کھانے کےلیے کچھ ہوتا تو اُسے پکاتے وقت اپنے گھروں کے دروازوں کو باہر سے مقفل رکھتے ٓ ۔ ایسے میں ایک آدمی کےلیے کتنا مشکل فیصلہ ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو بھوکا سُلا کے دوسرے بھوکوں کی خبر گیری کرے ۔ دوپہر کا وقت تھا داداجی نے کسی راہگیر کو یہ کہتے سنا کہ ” کہاں جائیں کون اللہ کا بندہ ہوگا کہ ایک نوالہ کھلائے اور ہماری جان بچائے ” دادا جی نے راہگیروں کو روک لیا اور بولے ” آو میرے ساتھ میں ہوں آپ کو کھانہ کھلانے والا ” ۔ یہ مسافر بڑے شش و پنج کے عالم میں ان کے ساتھ اُن کے گھر روانہ ہوئے ۔ گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہ تھا لیکن اُس نے ایک تدبیردل میں سوجھی ہوئی تھی، اُنہیں معلوم تھا کہ گھر میں کاشت کرنے کےلئے کوئی ادھا کلو چاول بھگونے کےلیے تیار پڑا ہے ۔ اگرپہلے بھگویا گیا ہے تو اُسے پانی سے نکال کر اُس کے گیلے چھلکے اتار کر اُبالا جا سکتا ہے اگر ابھی تک نہیں بھگویا گیا ہے تو اپنی بیوی سے کُٹوا کے پکوائے گا تاکہ انسانوں کی جانیں بچ جائیں( یاد رہے کہ چاول کو کاشت کرنے سے پہلے اُسے چند دنوں کےلئے پانی میں بھگویا جاتا ہے تاکہ اُس کی چڑیں نکل آئیں اور بوائی کےلئے تیار ہو) ۔گھر پہنچ کر اپنی بیوی یعنی میری نیک دل دادی( مرحومہ) کو راہگیروں کا مسئلہ بتایا اور یوں چاول ابھی تک نہیں بھگویا گیا تھا ۔ تازہ چاول کو خود کوٹ کر چھلکے اُتارے ، مرغی کو ذبح کیا اور ادھے گھنٹے میں ایک شاہی طعام تیار تھا ۔ مسافروں نے کھایا ، خوب دعائیں دیں اور چلتے بنے ۔ ادھر مہمانوں کے جانے کے بعد دادی امّاں نے دادا سے استفسار کیا کہ اپ کہاں سے چاول لا کر کاشت کرو گے تو دادا نے کہا ” ہمارا خالق چاول سے بہت بڑا ہے, پیدا کیا ہے تو روزی بھی دے گا جیسے ان بھوک سے نڈھال راہگیروں کےلیے مجھے اور آپ کو سبب بنایا ” 

    مضبوط قویٰ کا آدمی تھے ۔ بلا کے خوش خوراک ، جسمانی ورزش کے دلدادہ ۔ تیراکی کا مشہور استاد جوکہ بونی کے سامنے دریائے چترال کے بھنوروں سے کھیلتا ہوا جنالکوچ جنالکوچ تک جاتے ۔ زندگی بھر کھانے کی کسی چیز سے پرہیز نہیں کیا ۔ ناشتے میں اکثر شکایت کرتے اور کہتے کہ ہم اپنے زمانے میں 6 سے 10 انڈے ایک وقت میں کھایا کرتے ۔ ڈراور خوف نام کی کوئی لفظ اُس کی لغت میں نہیں تھا گھر میں بیٹھے اگر زور دار بھونچال آجائے تو بھی ہمیں گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے اور کہتے ” کہاں بھاگے جا رہے ہو میں جو یہاں بیٹھا ہوں ” یہ عظیم شخص آج کے دن بعمل 11 اپنی جان ، جان آفرین کی سپرد کی اور ہمیں ہمیشہ کی داغ مفارقت دی ۔حق معفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button