اپر چترالسیاست

”سردار حسین شاہ، جن یا انس“ (پہلی قسط)

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

 

ایک ایسا نام جو چترال میں تعارف کا قطعی طور پرمحتاج نہیں۔ مختصر سا قد کاٹھ، قدرے گول مٹول اورپُر خمار آنکھیں۔ گورے گورے گال مگر مرور زمانہ سے چہرے کے قوسین، واوین اور نقطوں میں ہلکی سی فطری ہیر پھیر۔ناک نقشہ ایسا کہ یکدم سے سیاہ بال ( ذکر خضاب سے ہم اس کافر کو ہرگز بد گمان ہونے نہیں دیتے ) – بانکاچھبیلا نوجوان، ہر قماش کے لوگوں سے گہری شناسائی ۔ عمر قریب قریب 60 برس لیکن چہرے سے مسیں ابھی بھیگی ہوءیں ۔ میں شاید سردار بھائی پر قلم نہ اُٹھا تا لیکن اُن سے جب جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو اُن کے بچپن کی کہانیاں کسی فلم کے اسکرین کی طرح یکے بعد دیگرے یاد داشت کے دریچے کے سامنے سے گزرتی ہیں جن میں ہر طرح اور ہر رنگ کے واقعات ملتے ہیں ۔ کھرا کھوٹا سب دستیاب ہوتا ہے ۔موصوف کی روزمرہ زندگی میں پچیدگی اور سادگی دونوں کا پلڑا متوازن رہتا ہے ۔ آپ اگر اُن سے پہلی بار مل رہے ہیں تو پہلے چند لمحوں میں آپ اُنہیں سرسری نگاہوں کے آئینے میں پرکھتے ہوئے سطحی رائے قائم کریں گے کیوں کہ ہم کسی آدمی کو اُن کے لباس اور ظاہری خدو خال سے ناپتے ہیں ۔ لیکن چند ہی لمحوں کے بعد سردار حسین کے اندر کا اصل آدمی آہستہ آہستہ باہر آنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب سامنے والے کے اندر آپ کو جذب کرنے کی صلاحت ہو ۔ تصویر کا یہ رخ اتنا جاذب نظر ہے کہ آپ اُن کے پہلؤ سے ایک پل کےلیے بھی اپنے آپ کو جدا نہیں کر پائیں گے ۔ یعنی ہم سردار صاحب کو”مشکل آسان“ کہہ سکتے ہیں۔ سردار صاحب رشتے میں میرے خالہ زاد بھائی ہیں میری اور آپ کی مائیں بہنیں ہیں۔ میرے دادا جان(میتار باک مرحوم) اُن کے دادا جان شاہ پیر سید (مرحوم)کے غیرت مندا ور د لیر دوستوں میں سے ایک تھے ۔ میرے دادا (مرحوم) کہا کرتے تھے کہ سردار حسین کے دادا شاہ پیر سید (مرحوم) ایک مضبوط قویٰ کے مالک ، پور ے منطقے میں بے حد اثر و رسوخ رکھنے والا ، جسمانی طور پر تن و مند، مظبوط ، اور دلیر آدمی تھے۔ شاہ پیر کا نام سن کر علاقے کے آوارہ اور اوباش نوجوانوں کی ہوا نکل جاتی ۔ علاقے میں کہیں کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا توآخری فیصلہ شاہ پیر کا ہوا کرتا تھا ۔ شاہ پیر کا فیصلہ گویا پتھر پر لکیر کی مثال ہوا کرتا۔ پرانے زمانے میں ہمارا ( میرا اور سردار کا)ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا، شام تک کیچڑ کے ساتھ کھیلنا کودنا اور گھروندے بنانا معمول تھا ۔ سردار جب ہمارے ساتھ کھیلنے آتے تو خود کیچڑ کو ہاتھ نہیں لگاتے بلکہ ہمیں مورتیاں اور گھروندے بنانے کے اصول بتایا کرتے ۔ میرے دادا جان ان تماشوں کو دیکھ دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب جاتے اورفرمایا کرتے کہ یہ لڑکا اپنے دادا پر گیا ہے اِن کی تمام عادتیں اُسی کی ہیں یہاں تک کہ شکل و صورت بھی بڑی حد تک شاہ پیر سید سے ملتی جلتی ہے۔ 

 بچپن میں موسم سرما کی تعطیلات میں ہم سب لکڑیاں ( درون یا تھیسپوک) لانے کاغ لشٹ جایا کرتے۔ سردار حسین بھی ہمارے ساتھ آیا کرتے، بلکہ ہم اُن کے ساتھ جایا کرتے۔ ہم کدال (کھسکور) سے کھود کھود کر تھیسپوک جمع کرتے اور یہ صاحب کسی پتھر کے اوپر پاؤں پر پاؤں دھرے بیٹھا ہوتا، کبھی کبھار کنگ سٹار سگریٹ نکال کر سلگاتے اور انگلیوں کو مٹھی بنا کر آخری دو اُنگلیوں کے درمیاں دبا کر گنگ سٹار کا پورا تار نیچے پھیپڑوں میں کھینچ لیتے ۔ سگریٹ اس انداز سے پینے میں ہمارے پورے گاؤں میں دو ہی لوگ یکتا تھے ایک میرے دادا جان ( مرحوم ) ایک دوکاندہ کی مشہور شخصیت جناب بابا ( مرحوم )۔ بہر کیف ہم لکڑیاں جمع کرتے اور صاحب موصوف کام میں بالکل ہاتھ نہ لگاتے بلکہ کام کرنے والے لڑکوں کی طرف اُنگلی کے اشارے سے تنبیہ کرتے کہ یہ کرو وہ کرو ! ہمارے اُس گروہ میں سارے لڑکے قد میں اُن سے بڑے ہوتے تھے جیسے ٹیک لشٹ کا شربت بھائی جو آج بھی اپنے دیو ہیکل قد کی وجہ سے شہرت کا حامل ہے لیکن اس کے باوجود بھی یہ صاحب اُن سب پر بھاری اور ہاوی تھے۔ یوں اس جماعت کے تمام لڑکے ساجھا ملا کر آپ جناب کے لئے بھی پیٹھ پر اٹھانے کےلیے ٹال (بار) بناتے ۔ اس مشقت سے واپسی پر ہم اپنے اپنے بوجھوں سمیت (آورینی) کی مددسے اُترائی اُترتے اور وہ بغیر بوجھ کے آورینی پر سوار ہوتے (آورینی لکڑی کا وہ ڈنڈا ہوتا ہے کہ جس پر سواری کر کے اپنا بوجھ اُس پر رکھا جاتا ہے تاکہ وزن اُس ڈنڈے پر پڑے اور بندہ آسانی سے اُترائی اُترے) ہاں البتہ اتنا ضرور تھا کہ وہ ہم سب کے کھسکور اُٹھا کے آگے ہوتے اور ہم اپنے بوجھوں کو اُٹھانے کے ساتھ ساتھ باری باری اُ ن کا بوجھ بھی اُٹھاتے اور نیچے پل تک لے آتے۔ پل پہنچ کر وہ ہم سب کے کھسکور ہمارے حوالے کرتا اور اپنا (بار) پیٹھ پر اُٹھا کر اُچھلتے کودتے اپنے گھر کی طرف چلا جایا کرتے تھے۔ اب تک معلوم نہیں کہ ہم سب اُن کے کہنے پر لبیک کیوں کہتے تھے؟ اگر ہم میں یہ پوچھنے کی ہمت کیوں نہیں ہوتی تھی کہ بھائی ہم آزاد پاکستانی قوم ہیں ا پنے اپنے گھر سے کھاتے ہیں تم اپنے گھر سے اپنے ماں باپ کا کھاتے ہو لہذا ہم پر حکم چلانے کا تمہیں کوئی حق نہیں ۔ لیکن نہیں معلوم وہ ہم پر کونسا جادو کرتے کہ ہم اُن کا کوئی حکم ٹال نہیں سکتے تھے۔اُن کے ساتھ کام بس ایک بیگار تھا جہاں مشقت تو کرنی پڑتی ہے لیکن عوض اور اُجرت نہیں ملتی۔ ( باقی دوسری قسط میں ملاحظہ کیجیے )

Advertisement
Back to top button