تعلیمکالم نگار

ہم خاموش نہیں رہیں گے

ظہور الحق دانش

  

گشتہ دس بارہ سال سے، جب سے ہم نے شدید لکھنا شروع کیا ہے، اکثر خیر خواہ دوست گلہ شکوہ کرتے رہتے ہیں کہ آپ چھوٹی موٹی باتوں پر کیوں لکھ رہے ہو، اپنا "سٹیٹس، کیلیبر، مقام” وغیرہ کے خلاف کیوں کام کر رہے ہو، خاموش رہا کرو وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سب دوستوں اور خیر خواہوں کی محبتوں کے احترام اور شکریے کے بعد کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ (اس تحریر کو مقدّمہ سمجھ لیجیے گا)۔

دیکھیں ہم پہلے چترال میں رہتے ہیں، پھر مملکت پاکستان میں رہتے ہیں۔ چترال کی بات کریں تو ہم لوگ گزشتہ کئی صدیوں سے ان پہاڑوں کے دامن میں کوئی حاکم اور کوئی محکوم کی صورت رہتے تھے۔ قبائلی اور ریاستی دور تھا۔ شخصی حکومتیں تھیں، جو مختلف ادوار میں مختلف انداز سے بدل گئیں۔ اعلیٰ ہذا القیاس ایک وقت ایسا آیا کہ چترال کے اپنے ہی لوگ اپنے ہی حکمران بھائیوں کی شخصی حکومتوں کے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے۔ ایسا کیوں ہوا؟ انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کی روایت ختم کرانے کی سمجھ انسان کو آ گئی تھی۔ اس سمجھ کی بہار انگیز لہر چترال کے بنجر پہاڑوں کو بھی ٹکرا گئی تھی۔ ہمارے ہزاروں آباؤ اجداد نے اتنی قربانی دی کہ تحریک پاکستان کی لہر ریاستِ چترال میں داخل ہوتے ہی انہوں نے اس تحریک کو لبیک کہا اور اس وقت کے مطابق ان کو حاصل اختیارات و مراعات سب کچھ کو قربان کرکے شخصی حکومت کے خلاف اٹھے۔ اپنے ہی حکمران بھائیوں کی مخالفت کی۔ انسانی آزادی، انصاف اور مساوات کی امید میں پاکستان میں ضم ہونے کی تحریک چلائی۔ یقینی بات ہے اس تحریک میں انہیں بہت نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ آخر کار وہ جیت گئے اور یوں ریاستِ چترال متحدہ ہندوستان کی ایک سو پانچ ریاستوں میں سب پہلی ریاست تھی جس نے رضا کارانہ طور مملکت پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ پھر 1948 ء میں گلگت و سکردو میں کشمیر کے ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑنے کی نوبت آئی تو چترال کے ہمارے آباؤ اجداد ہتھیار اٹھائے وہاں پہنچ گئے۔ سکردو کے تاریخی محاصرہ میں شاندار کردار ادا کیا۔ اور بالآخر فتح حاصل کر لی۔ یوں اتنا بڑا علاقے فتح کرکے پاکستان میں ضم کر لیا۔ ریاستِ پاکستان کی خاطر ہمارے آباؤ اجداد کی یہ وہ شاندار قربانی ہے جسے آج تک کسی نے اکنالج نہیں کیا ہے۔ آپ میں سے اگر کسی نے سکردو کا کھرپوچو فورٹ دیکھا ہے تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ جنگی نقظہ نظر سے کتنے مشکل مقام پر واقع قلعہ کو چترالی جنگجوؤں نے فتح کیا ہے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ اپنی جانیں ہتھیلی پہ رکھ کے ہمارے وہ ان پڑھ مگر تعلیم یافتہ آباؤاجداد نے مذکورہ بالا خطرے کیوں مول لیے؟ جواب سادہ سا ہے۔ وہ آزاد ہونا چاہتے تھے۔ آزادی انسان کا فطری حق ہوتا ہے۔ وہ کن چیزوں سے آزاد ہونا چاہتے تھے؟ وہ شخصی حکومت سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ شخصی قوانین سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔ کیونکہ شخصی قوانین ایک فرد کی خواہش و منشا ہوتے ہیں۔ اس میں حکمران کے علاوہ کسی اور کے خیر و تحفظ کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ ایک ایسی ریاست کا حصہ بنا جائے جو شخصی قوانین کے بجائے شورائی اور ادارتی قوانین پر چلے گی۔ جہاں انسان کے جان و مال اور بنیادی حقوق محفوظ ہوں۔ جہاں شخصی فرعونیت و انانیت نہ ہو، بلکہ اہلیت و قابلیت اور کردار کے اوپر انسانوں کو پرکھا جائے۔ جہاں قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ کم و بیش یہی وہ چیزیں تھیں جن کی خاطر ہمارے ان پڑھ مگر تعلیم یافتہ آباؤاجداد نے وہ ساری قربانیاں دیں، اور چترال کو ریاست پاکستان میں ضم کرا لیا۔ 

اب ہمارا وقت ہے۔ اکیسویں صدی ہے۔ ایک وسیع افقی گلوبلائزڈ دنیا میں رہ رہے ہیں۔ ایک نیشن اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں جو آئین اور قوانین رکھتی ہے۔ ان قوانین کے مطابق چلنا ہی وطن دوستی ہے۔ جذبہء وطن دوستی اور قانون پسندی ہم سے متقاضی ہیں کہ ہم اپنے تئیں معاملات کو آئین و قانون کے مطابق چلائیں اور نہ چلانے والوں کو قانوں کے مطابق چلانے کی سمجھ بوجھ دیدیں۔ ناواقف اور ناسمجھوں کو سمجھ دیدیں۔ بے شعور لوگوں سے اپنا شعور بانٹیں، انہیں آگہی دیدیں۔ ملکی قوانین کو پامال کرکے معاشرے اور اداروں کو اپنے ذاتی مفادات کی لونڈی بنانے والوں کے خلاف اپنی آواز اٹھاتے رہیں۔ یاد رہے آج کسی ایسی ہائی جیکر ذہنیت کے خلاف بولنا ایسا ہی ضروری ہے جیسے اس وقت ہمارے آباؤ اجداد کا تلوار اور بندوق اٹھا کے گلگت و سکردو پہنچنا ضروری تھا۔ سماج اور اداروں کی بہتری کی بات اور کوششیں کرنا قلمی و علمی جہاد ہے۔ انسان اور انسانیت دشمن منفی، استحصالی اور اجارہ دارانہ ذہنیت کے خلاف بولنا، آواز اٹھانا عین جہاد ہے۔

ہمارے اَن پڑھ مگر تعلیم یافتہ آباؤ اجداد کے پاس قربانی کا جذبہ اور تلواریں تھی۔ ہم جو تعلیم یافتہ اَن پڑھ ہیں ہمارے پاس کم از کم قلم، زبان اور اخلاقی جرأت ہونی چاہیے۔ 

لہٰذا، ہم اپنے آباؤ اجداد کے آزاد کردہ ریاستِ چترال اور اپنی جان سے پیارے علاقہ چترال کے معاشرے اور اداروں کے اندر ہر انسان دشمن استحصالی اور اجارہ دارانہ مریض ذہنیت کے خلاف لکھتے اور بولتے رہیں گے۔ ہم ہر ایسی استحصالی اور اجارہ دار ذہنیت کے خلاف لکھیں اور بولیں گے جو دوسروں کا حق پامال کرتی ہو، دوسروں کا جینا محال کرتی ہو، چاہے وہ ذہنیت مذہبی و فرقہ وارانہ ہو یا نسلی، سیاسی و علاقائی ہو یا صنفی، اداراتی ہو یا سماجی۔ کیونکہ ہم انسانی آزادی اور برابری پر یقین رکھتے ہیں۔ انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ اور علاقہء چترال کے مضبوط اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اس علاقے، اس کے معاشرے اور اس کے اداروں کو مفاد پرست اور اجارہ دار و استحصالی ذہنیت کے ہاتھوں یرغمال ہونے نہیں دینگے۔ جہاں چترال اور چترال کے عوامی اداروں کے مفاد کی بات ہو ہم کبھی بھی کسی مصلحت کا شکار نہیں ہونگے، انشاء اللہ۔ اور ہاں ہم خاموش نہیں رہیں گے۔

Advertisement
Back to top button