خواتین کا صفحہکالم نگار

ٹک ٹاکر عائشہ، شریعت ،ہماری مریض ذہنیت اور دوا۔

ظہور الحق دانش

مینارِ پاکستان اقبال پارک واقعے پر دائیں و بائیں بازو کے لوگوں کے تبصرے کئی دن سے پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک حد تک اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے پرہیز کیا۔ مگر کچھ ایسے تبصرے جن سے ہماری مجموعی ذہنیت ریفلیکٹ ہوتی ہے پڑھنے کے بعد اپنا تبصرہ داغنا مجبوری بن گیا۔ 

اس واقعہ بارے تقریباً اکثریت کی رائے یہ بن گئی ہے کہ چونکہ عائشہ نے "اللہ اور شریعت کے برخلاف کام کیا ہے” لہٰذا اس ہجوم کا اُسے بھنبھوڑنا ایک رد عمل تھا، یہاں رد عمل سے ان کی مراد ‘جائز’ ہے۔ یعنی اگر عائشہ ایسا نہ کرتی تو وہ لونڈے ویسا نہ کرتے۔ 

کئی ایک پوچھنے کے قابل سوالات پیدا ہوتے ہیں جو پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ چلو مان لیا کہ عائشہ نے "حکم الٰہی اور شریعت کے برخلاف” کام کیا ہے تو کیا یہ منطق ٹھیک ہے کہ وہاں موجود لونڈے بھی اخلاقیات اور شریعت کے سارے تقاضے مٹا ڈالیں اور ایک بے بس بنت حوا کو یوں سرِ عام نوچ ڈالیں؟ یہ کونسا اخلاقی اور شرعی معیار ہے بھئی؟ نکتہ اتنی آسانی سے سمجھ نہیں آئے گا، لہٰذا آئیے ایک الگ طریقے سے دیکھتے ہیں۔ شریعت کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ کسی بھی عمل اور رد عمل کو پہلے خود اپنی ذات پر اپلائی کرکے دیکھو۔ آئیے اس واقعے میں عمل اور رد عمل کو بھی اسی طرح اپنے اوپر اپلائی کرکے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں اُس دن اقبال پارک مینارِ پاکستان میں ویڈیو بنانے والی عائشہ نہیں تھی۔ بلکہ آپ کی بہت ہی پیاری سگی بہن، سگی ماں، سگی بیٹی یا سگی بیوی تھی۔ آپ کی یہ سگی بہن یا سگی ماں یا سگی بیٹی یا سگی بیوی کسی الوہی آزمائش کے تحت آزاد منش ہے اور آپ کی شریعت کی پابندیوں کی کچھ زیادہ پروا نہیں کرتی۔ ایک دن یعنی آزادی کے دن وہ آپ کی نہیں سنتی اور پارک چلی جاتی ہے۔ تصویریں نکالتے اور ویڈیو بناتے دیکھ کر کچھ انسان نما جنسی مخلوق آپ کی بہت ہی پیاری سگی بہن/ماں/بیٹی/بیوی پر جھپٹ پڑتے ہیں اور اسے برسرعام بھنبھوڑنے اور نوچنے لگ جاتے ہیں۔ آپ کو سوشل میڈیا ویڈیو فوٹیج اور ٹی وی پر تصدیقی خبر سے اس واقعے کا پتہ چلتا ہے۔ کیا تب بھی آپ وہی کچھ کہہ کر دلیل اور جواز دیتے پھر رہے ہوگے جو عائشہ کو نوچنے کے ویڈیو دیکھ کر کہہ رہے ہو؟ خود سے پوچھیے۔ 

بھئی یہ کونسا شرعی اور اخلاقی معیار ہے کہ اگر اُس نے شریعت کو پامال کیا تو یہی بات عین جواز ہے کہ میں بھی شریعت کو پامال کروں؟ "ہسے پھیرو اویوئے، لہٰذا اوا دی پھیرو ژیبوم، یا ہتو ردعملہ کا کی پھیرو ژوتی اسور سہی کوری اسور، ہیس جائز۔” یہ کونسا شرعی و اخلاقی معیار ہوا؟

یاد رکھیے یہی وہ خطرناک مریض ذہنیت ہے جس نے نہ صرف ہمارے معاشرے کو تباہ کیا ہے بلکہ اسی ذہنیت نے اسلام کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ایسی ذہنیت کے کیے ہوئے تاویلات و مباحث اور ریزننگ کی وجہ سے ہی مغربی اسلام دشمن قوتوں کو لقمے ملتے رہتے ہیں اور وہ دین اسلام پر اعتراضات کرکے اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ ایسے اسلام دشمن معترضین کو خوراک ہماری یہ مریض ذہنیت فراہم کرتی رہی ہے اور کرتی رہتی ہے۔

یہی وہ ذہنیت ہے جو کہتی ہے کہ اگر وہ غلط کاری کرتا ہے تو تم بھی کرو، کیونکہ تمہارا غلط کرنا ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ اگر وہ سود کھاتا ہے تو تم بھی کھاؤ، اگرچہ صریحاً نہ سہی تو سود کا نام کچھ اور رکھ کے کھاؤ، کیونکہ سود کے بغیر گزارا نہیں، اور تمہارا سود کھانا ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ اگر عورت مکمل شرعی لباس میں ملبوس نہ ہو تو اُسے چھیڑنا اور نوچنا ایک رد عمل، یوں جائز ہے۔ عورت کو گھر میں قید رہنا چاہیے، اور اگر ایسا نہیں کرتی اور باہر جاتی ہے تو اسے چھیڑنا، بھنبھوڑنا اور نوچنا محض ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔ کیونکہ وہ اسی لیے ہی باہر نکلتی ہے کہ اسے چھیڑا اور نوچا جائے۔ اگر کوئی کافر کسی انسانی اخلاقی اقدار کو پامال کرتا ہے تو تم بھی کرو، کیونکہ اس کا ایسا کرنا ہی تمہارے لیے جواز ہے کہ تم بھی ویسا ہی کرو۔ اگر کسی لڑکے نے تمہیں ہم جنس پرستی پر بہکایا ہے تو بہک جاؤ، کیونکہ بہکنا اتنا غلط نہیں ہے جتنا بہکانا ہے۔ غلطی/گناہ اس کی زیادہ ہے کہ اس نے بہکایا ہی کیوں؟ آپ کا بہک جانا تو محض ایک رد عمل ہے، پس جائز ہے۔

کرپشن، رشوت خوری، میرٹ کا قتل، اقربا پروری چونکہ ہر کوئی کرتا ہے ہر ادارہ کرتا ہے، اِن کے بغیر کام نہیں چلتا، لہٰذا تم بھی ویسا ہی کرو۔ کیونکہ تمہارا ویسا کرنا ایک ردعمل اور ایک مجبوری ہے، پس جائز ہے۔ 

گنتے جائے۔ ایسی ریزننگ اور ایسے کرشمہ ہائے جواز ایسی مریض ذہنیت کی پیداوار ہیں۔ اِسی مریض ذہنیت سے خود کو بچانا معاشرے اور دین اسلام پر بہت بڑا احسان کرنے کے مترادف ہوگا۔ 

کس طرح بچا جا سکتا ہے؟ 

کسی بھی واقعے، عمل اور رد عمل کو خود اپنے اوپر اور اپنے قریبی رشتوں کے اوپر اپلائی کرکے اپنے فطری جذبات و احساسات و اخلاقیات دیکھو، پھر کلام کرو۔ اسلام دینِ فطرت ہے۔ اس کے تقاضے بڑے فطری اور کل جہتی ہیں۔ دوسروں کی عورت پر بات کرنا بہت آسان ہے۔ اپنی عورت کو اس کی جگہ کھڑی کرکے دیکھو، آپ ایسی ویسی باتیں ہرگز نہیں کر پاؤ گے، بلکہ ہمدردی اور انسان دوستی کا ایک خوبصورت جذبہ آپ کے دل میں پیدا ہوگا۔ اللہ منفی اور مریض ذہنیت سے ہم سب کو بچائے رکھے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button