تاریخ اور ادبتعلیم

جامعاتی افسانچے

ظہور الحق دانش

 

وضاحت/ڈِسکلیمیر: 

جامعاتی افسانچے مشاہدات و حقیقی تجربات پر مبنی افسانوں کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ سلسلہ خالص افسانوی سلسلہ ہے۔ اسے حقیقی رپورٹوں یا حقیقی تجربات کا مجموعہ نہ سمجھا جائے۔ اتنی وضاحت کے بعد یہ قارئین پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اِنہیں افسانے سمجھتے ہیں یا نہیں۔ بہرحال اصل بات یہ ہے کہ اِن افسانوں کا مرکزی کردار جو مریض و سیڈِسٹ ذہنیت ہے وہ حقیقت میں جی رہی ہے اور اپنی مکارانہ محرکات کی وجہ سے ملازمین اور طلبہ کے لیے مسئلے پیدا کرنے کی جستجو میں ہر دَم مگن رہتی ہے۔ 

اِن افسانوں میں اگر علاقوں، ادارے اور کرداروں کے نام کسی حقیقی علاقہ، ادارہ یا فرد سے مطابقت رکھیں تو یہ یا تو حسنِ اتفاق کا معاملہ ہے اور یا حادثہ۔ افسانہ نگار کا اِنٹنشن ہر گز ایسا نہیں ہے۔ 

یاد رہے یہ سارے افسانے فسٹ پرسن پوائنٹ آف ویو میں لکھے جائیں گے۔ 

افسانہ نمبر1: "کوردوغلو بابو کی پہلی مکّاری”

دس سال پہلے کی بات ہے۔ میں بے نظیر بھٹو یونیورسٹی نامی ایک افسانوی جامعہ میں انگریزی کا لیکچرر اور ساتھ ساتھ انگلش ڈیپارٹمنٹ کا انچارج بھی تھا۔ کوردوغلو بابو جس کا پورا نام نآجی گل خان (نون الف بڑی مد کے ساتھ)، "سوبوڈین” تھا، اور یونیورسٹی کے سب کیمپس چترال نامی ایک افسانوی کیمپس کے ایگزام سیکشن کا انچارج تھا۔ (ہاں یہی وہ بندہ تھا جو اپنی مکاریوں اور منافقتوں کی وجہ سے بعد میں کوردوغلو بابو کے نام سے مشہور ہوا)۔ 

دس سال پہلے کی بات ہے۔ اکتوبر کا مہینہ تھا۔ یونیورسٹی کیمپس میں ایم-اے ریگولر کے داخلے مکمل ہو کے کلاسز کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں تقریبا پچاس کے لگ بھگ طلباء و طالبات نے داخلہ لیا تھا۔ ابھی اُن کے رجسٹریشن فارمز بھروا کے مع ڈاکومنٹس یونیورسٹی کے مین کیمپس بھیجوانے تھے، تاکہ سٹوڈنٹس یونیورسٹی کے ساتھ رجسٹرڈ ہو سکیں۔ میں نے بحیثیت انچارج کلاس میں اناؤنس کیا، اور دو ہی دنوں کے اندر اکثر سٹوڈنٹس فارمز پورے کرکے ڈیپارٹمنٹ میں جمع کیے۔ (یاد رہے اس کلاس کے کئی ایک سٹوڈنٹس آج کل گیزیٹیڈ پوسٹوں پر سرکاری محکموں میں تعینات ہیں). صرف تین چار سٹوڈنٹس کے فارمز ابھی جمع ہونا باقی تھے۔ اگلے دن ڈیپارٹمنٹ گیا تو میرے نام ایک دفتری مراسلہ آیا تھا۔ کھول کے دیکھا تو ڈائریکٹریٹ أف کریکولم اور ٹیچرز ایجوکیشن صوبہ خیبرپختونخواہ نامی ایک افسانوی ڈائریکٹریٹ کی طرف سے بھیجا تھا۔ متن کچھ یوں تھا کہ چونکہ صوبہ خیبرپختونخواہ نامی ایک افسانوی صوبہ میں پانچ علاقائی زبانوں میں نصاب سازی کا عمل شروع ہو رہا ہے، لہٰذا کھوار زبان میں نصاب سازی کے لیے جو ٹیم ترتیب دی گئی ہے میں بھی اس کا حصہ تھا۔ مذکورہ خط یونیورسٹی کے رجسٹرار کو بھی کاپی کیا گیا تھا اس درخواست کے ساتھ کہ مذکورہ ملازم کو اس دو ہفتہ ورکشاپ کے لیے بھیج دیا جائے۔ 

چونکہ سٹوڈنٹس کے فارمز ابھی پورے جمع نہیں ہوئے تھے اور مجھے اگلے دن پشاور نامی ایک شہر کی طرف نکلنا تھا۔ میں نے کلاس میں جا کے اناؤنس کیا کہ میں سارے جمع شدہ فارمز ایگزام سیکشن کے انچارج (ہاں اُسی کوردوغلو بابو) کے حوالے کرکے جاؤنگا، اور جن سٹوڈنٹ کے فارمز رہتے ہیں وہ متعلقہ ضروری ڈاکومنٹس اور تصاویر فارمز کیساتھ لف کرکے ایگزام سیکشن کے انچارج کو حوالہ کریں، پھر وہ آگے یونیورسٹی کے مین کیمپس کے متعلقہ آفس بھیج دے گا۔ اس کے بعد میں نے وہ سارے جمع شدہ فارمز "سوبوڈین” صاحب (ہاں اسی کوردوغلو بابو) کے حوالے کیا اور بتایا کہ باقی تین فارمز رہتے ہیں وہ سٹوڈنٹس خود آپ کے ہاں جمع کریں گے، کیونکہ مجھے دو ہفتے کے لیے جانا ہے پھر دیر کرنے کی صورت میں سٹوڈنٹس کی ایڈمیشن کنفرمیشن اور رجسٹریشن میں مسئلہ ہوگا۔ بابو صاحب بڑی خوشی سے ہنستا کھلتا فارمز سے بھرا فائل مجھ سے لے لیا۔

دو دن بعد پشاور نامی ایک افسانوی شہر میں ورکشاپ سے پہلے کریکولم سیمینار میں بیٹھا ہوا تھا، جس میں ساری پانچ صوبائی زبانوں یعنی پشتو، ہندکو، کھوار، سرائیکی اور انڈس کوہستانی کی نصاب ساز ٹیمیں شامل تھیں۔ صوبہ کے جانے پہچانے ماہرین تعلیم، ماہرین نصاب سازی اور صوبائی ڈائریکٹر کریکولم کے ہمارے ساتھ نصاب سازی اور اس کے اسٹیجز بارے آگہی سیشنز تھے۔

اس دوران میرا فون وائبریشن میں بار بار بج رہا تھا، اور بند ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اکثر نامعلوم نمبرات سے کالیں تھیں اور دو چار کالیں ایم-اے کلاس کے سی آر اور جی آر کی مس ہو چکی تھیں۔ میں نے اٹنڈ نہیں کیا تو مجھے مسیج ملا کہ سر کال بہت ارجنٹ ہے اٹنڈ کیجیے، ہم سٹرائیک پہ جانے کا سوچ رہے ہیں۔ میں سیمینار سے کھسک کے باہر نکل گیا۔ کال اٹینڈ کی تو پتہ چلا کہ کوردوغلو بابو نے ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے کلاس میں جاکے اعلان کیا ہے کہ دوسرے ڈیپارٹمنٹس کے سٹوڈنٹس کے فارمز مجھے مل گئے ہیں لیکن آپ کے ڈیپارٹمنٹ کا ایک فارم بھی مجھے نہیں ملا ہے۔ پھر اس نے یہ بھی اناؤنس کیا تھا کہ کل تک سارے سٹوڈنٹس از سرِ نو فارمز جمع کریں اور حبیب بنک میں ہر سٹوڈنٹ پندرہ سو روپے بھی اس اکاؤنٹ میں جمع کرے۔ (حالانکہ رجسٹریشن فارم کے ساتھ کوئی فیس جمع کرنی نہیں ہوتی)۔

پھر کہا ہے کہ آپ کا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پشاور میں مستیاں کر رہا ہے اور مجھے آپ کے فارمز حوالہ نہیں کیا ہے۔ شاید کوردوغلو بابو کا مقصد سٹوڈنٹس کو میرے خلاف سٹرائیک پر اکسانا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے سٹوڈنٹس کی مجھ سے ہمیشہ والہانہ محبت رہی ہے اور حد سے زیادہ عزت دیتے ہیں۔ انہوں نے بغیر کسی سٹرائیک کے مجھ سے رابطہ کرکے معاملے کی درست تصویر لینے کو ترجیح دی۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ میری خاطر کسی سٹرائیک پر مت نکلیں، اچھا نہیں ہوگا۔ مسئلے کو بجائے الجھانے کے حل کرنا اچھا ہوگا۔ ان کو کہا کہ جب تک میں کنٹرولر صاحب اور ڈائیریکٹر اکیڈمکس صاحب سے رابطہ کرکے ان کو کچھ نہ بتاؤں وہ کوئی پیسہ ویسہ بنک میں جمع نہ کریں۔ پھر فوراً کنٹرولر صاحب سے فون پہ اس پراسرار معاملے پر کھل کے بات کی تو وہ پورا پورا سمجھ گیا۔ پیسے کی بات سن کے تو اُن کا پارہ چڑھ گیا۔ مجھے ہدایت کی کہ بس فارم کدھر غائب ہوئے ہیں، اُن کے ساتھ کیا ہوا ہے، اس کے پیچھے نہ پڑیں۔ اور سٹوڈنٹس کو کہہ دیں کہ صرف فارمز دوبارہ جمع کریں، کوئی ایک روپیہ بھی بنک میں فیس جمع نہیں کرنی۔ پھر مجھے ہدایت کہ یہ فارمز اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کے اپنی جگہ انچارج ٹیچر کے ذریعے ڈائریکٹ مجھے بھجوا دیں اور کوردوغلو بابو کے حوالے نہ کریں۔ یہ بندہ جب بھی ادھر آتا ہے تو کسی بھی ملازم کے بارے میں اچھی بات نہیں کرتا، ہر وقت بے تکی شکایت لے کر پہنچ جاتا ہے۔ بس اس کے ساتھ گزارا کرو، اور خاموشی سے فارمز دوبارہ جمع کرکے بھیج دو۔ ایسا ہی کیا گیا۔ میں بارہ دن بعد ورکشاپ سے واپس آیا تو سٹوڈنٹس کے رجسٹریشن نمبرز بھی ان کو ایشو ہو چکے تھے، اور مسئلہ حل ہو چکا تھا۔

دو ڈھائی مہینے بعد سرما کی چھٹیوں میں میں کسی ذاتی مصروفیات کی وجہ سے پھر پشاور نامی افسانوی شہر میں ٹھہر رہا تھا۔ 

رات کو ایگزام سیکشن میں کام کرنے والے ایک فرشتہ صفت اور دیانتدار و با اخلاق کلرک کا مسیج مجھے ملا، جس میں ریکوئسٹ تھی کیا کال میں تفصیل سے بات ہو سکتی ہے کیونکہ معاملہ بڑا سیریس اور حساس سا ہے، سوائے اللہ اور ہم دونوں کے کسی کو پتہ نہیں ہونا چاہیے۔ میرے ساتھ کمرے ایک دو دوست اور تھے، لہٰذا میں کال ملانے اپارٹمنٹ کی چھت پر چلا گیا۔ 

سلیک علیک کے بعد وہ شریف بندہ یوں گویا ہوا کہ سر میں اپنے ضمیر اور آپ کے سامنے بہت شرمندہ ہوں۔ بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے معاملہ آپ کے ساتھ شئیر کروں اور اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کردوں۔ مگر شرط اور درخواست یہ ہے کہ میری خاطر آپ ردعمل میں کچھ بھی نہ کیجیے گا۔ سٹوڈنٹس کا مسئلہ چونکہ حل ہو چکا ہے، اسی لیے اس بات کو اب سے بھول جائیے گا۔ میں نے وعدہ کیا کہ کچھ ردعمل اور دفتری شکایت وغیرہ نہیں کرونگا۔ 

تو وہ شریف انسان گویا ہوئے کہ "سر جب آپ فارمز ایگزام سیکشن میں جمع کر رہے تھے تو میں گواہ تھا اور پاس ہی اپنے ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا۔ آپ کے جانے کے بعد "سوبوڈین” صاحب (ہاں وہی کوردوغلو بابو) نے فارمز میرے حوالے کیا اور کہا کہ ان کو فوراً کہیں چھپاؤ اور وقت ملتے ہی کہیں ضائع کردو۔ ہمیں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے انچارج نے کوئی فارمز نہیں دیے ہیں۔ مجھے عجیب حیرانگی ہوئی، پر کیا کر سکتا تھا، کیونکہ وہ میرا امیڈییٹ بوس تھا۔ مین نے وہ فارمز چھپا کے اپنے دراز میں لاک کیا، اور آج اپنے گھر لاکر اپنے کمرے کی انگیٹھی میں ان کو جلا کر راکھ کر دیا۔ وہ فارمز نہیں بلکہ میرا ضمیر جل رہا تھا۔ پتہ نہیں ایسا کرکے وہ آپ کے لیے کیا مسئلہ کھڑا کرنا چاہتا تھا۔ مگر سر آپ بڑے دیانتدار اور کھرا انسان ہو، مجھے یقین ہے آپ کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کر سکتا۔ آپ سرخرو رہوگے۔ لیکن سر اللہ کی خاطر یہ بات میرے اور آپ کے بیچ راز رہے۔ آئندہ ایسے معاملات میں احتیاط کیجیے گا۔”

وہ رات اور آج کا دن، میں نے دس سال تک یہ بات راز میں رکھی، اور آج مجبور ہو کے بتانا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ ایسی ذہنیت کو اگر وقت پر ایکسپوز نہ کیا جائے اور ان کے خلاف افسرانِ بالا کو دفتری شکایت کرکے ان کو راہِ راست پر نہ لایا جائے تو ہو سکتا ہے وہ بعد میں اسسٹنٹ کنٹرولر سیکریسی، ڈپٹی ڈائریکٹر پی اینڈ ڈی، اسسٹنٹ رجسٹرار میٹنگز اینڈ ریکارڈز اور پی ایس ٹو پی ڈی جیسے افسانوی عہدوں میں رہ کر اپنی ڈرافٹنگ کی کاپی پیسٹ ہنر کے طفیل پراجیکٹ ڈائریکٹر اور وائس چانسلر جیسے افسانوی ذمہ دار آفسران کے ذہنوں میں زہر بھر کے اُن کو ہائی جیک کرکے ملازمین کا جینا محال کر سکتی ہے۔ اور سٹیٹیوٹری باڈیز کی اہم ترین میٹنگوں میں بیٹھ کے بیوروکریسی کے قابل اور سفید کردار والے ممبران کو ادارے کے اور ملازمین کی سروس اور دوسرے معاملات کے بارے میں غلط معلومات دے کر، حقائق کے دستاویزات کو چھپا کر اُن کو گمراہ اور مِس گائیڈ کرکے اُن سے غلط فیصلے کروا کے اپنی سیڈِسٹ ذہنیت کو تسکین دی گی۔ یوں خود کو بچا کے تباہی و فساد کا ملبہ ایسے ذمہ دار آفسران اور فورمز پر ڈالے گی۔ لہٰذا ایسی افسانوی مریض ذہنیت کی تشخیص کرنے اور ان کے ذہنی مرض کی تشخیص میں دیر نہ کیجیے۔ 

اللہ ایسی ذہنیت کے شر سے سارے قارئین کو محفوظ و سلامت رکھے۔

افسانہ نمبر ایک ختم ہوا۔

افسانچہ "نمبر دو”، دو دن بعد پیش کیا جائے گا۔ انشاء اللہ۔

قُل اعوذُ بربّ الناس۔ ملکِ النّاس۔ اِلہِ النّاس۔ من شرّ الوسواسِ الخنّاس۔ الّذِی یُوَسوِسُ فی صدورِ النّاس۔ مِنَ الجِنّۃِ والنّاس۔

Advertisement
Back to top button