خبریںسماجیسیاست

انصاف سے عاری نظام انصاف ہمیں کہاں لے جا رہا ہے

عنایت شمسی

نظام انصاف کسی بھی ملکی نظام کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے، دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمن طیارے لندن پر بمباری کر رہے تھے، عوام نے پریشانی کا اظہار کیا تو برطانوی وزیر اعظم چرچل نے پوچھا کیا ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں؟ جب بتایا گیا کہ ہاں عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں تو چرچل نے عوام کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا تھا اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو برطانیہ کو کچھ نہیں ہو سکتا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی زبانی پوری قوم نے بارہا سنا ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ پہلی امتیں اس لیے تباہ کر دی گئیں کہ وہ انصاف میں ڈنڈی مارتی تھیں۔ طاقتور کو کوئی نہیں پوچھتا تھا، جبکہ کمزور اور غریب کو معمولی خلاف قانون کام پر سزا دی جاتی تھی۔ یہ واقعات نظام انصاف کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے کافی ہیں۔

ان واقعات کے آئینے میں پاکستان کے نظام انصاف کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہاں کا عدالتی نظام انتہائی فرسودہ اور تباہ حالی سے دوچار ہو چکا ہے اور اس نظام انصاف میں انصاف کے سوا ہر چیز موجود ہے۔

ملکی نظام انصاف کی ابتری کا عالم یہ ہے کہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ سمیت ملک بھر کی عدالتوں پر 22 لاکھ کے قریب زیر التوا کیسز کا نا قابل تحمل بوجھ پڑا ہوا ہے، جس کے نیچے نہ صرف ہمارا نظام انصاف سسک رہا ہے، بلکہ لاکھوں سائلین اور متاثرین بھی رل رہے ہیں اور مجموعی طور پر اس نا انصافی کے اثرات سے پوری قوم ہی شدید کرب اور اذیت کا سامنا کر رہی ہے۔

عدالتوں میں انصاف کی فراہمی میں سستی اور تاخیر اور زیر التوا کیسز کے بار میں اضافے کی متعدد وجوہ ہیں۔ ایک بڑی وجہ اعلیٰ عدالتوں میں سیاسی اور انتظامی نوعیت کے مقدمات کی وصولی بتائی جاتی ہے۔ عوام کا احساس ہے کہ اعلیٰ عدالتیں سیاسی کیسز میں بہت زیاہ دلچسپی لیتی ہیں اور ان کیلئے رات بارہ بارہ بجے بھی اپنے دروازے کھلی رکھتی ہیں، جبکہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ ایک ملزم جیل میں رہ کر برسوں عدالتی چارہ جوئی کا سامنا کرتا ہے اور جیل میں ہی انصاف کے انتظار میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے، تو اس کے کئی سال بعد عدالت اسے بے گناہ قرار دیتی ہے۔

ایک اور وجہ عدالتوں اور ججوں کی کمی بھی ہے۔ آبادی کے تناسب سے انصاف کی فراہمی کیلئے مطلوبہ تعداد میں عدالتیں قائم ہیں اور نہ ہی دستیاب عدالتوں میں سائلین کی داد رسی اور مقدمات کے حجم کو سمیٹنے کیلئے درکار جج موجود ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ضلعی عدالتوں سے لیکر عدالت ہائے عالیہ تک تمام عدالتوں میں ایک ہزار سے زائد ججوں کی اسامیاں خالی ہیں۔ ججوں کی خالی اسامیوں کا یہ مسئلہ طویل عرصے سے چلا آ رہا ہے، جو مجموعی طور پر عدالتوں پر بڑھتے ہوئے کیسز کے بوجھ کا ایک اہم سبب ہے۔ 

عدالتوں سے انصاف میں تاخیر سنگین سے سنگین تر ہوتا المیہ ہے، جس پر سیاسی اور سطحی انداز میں بات تو ہر کوئی کرتا ہے، مگر عملاً ان لوگوں نے بھی کچھ نہیں کیا، جو اقتدار میں آئے ہی انصاف اور ادارہ جاتی اصلاحات کے نام پر تھے۔ 

عدالتوں میں انصاف کا اس سطح پر ہونا کہ جنگ جیسے انتہائی غیر معمولی اور بے یقینی کے حالات و ماحول میں بھی نظام انصاف بے لاگ اور اطمینان بخش انداز میں بروئے کار آئے، ملک و قوم کے آدھے سے زیادہ مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔

عدالتی نظام کی بہتر انداز میں فعالیت کیلئے ضروری ہے کہ عدالتوں کو مکمل طور پر با اختیار اور کسی بھی حکومتی و غیر حکومتی دباؤ سے آزاد و غیر جانبدار بنایا جائے، عدالتوں پر مقدمات کا نا قابل تحمل بوجھ کم کرنے کیلئے عدالتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ جج صاحبان کی تعداد میں بھی آبادی کی ضروریات کے تناسب سے معقول اضافہ نہایت ضروری ہے۔ 

اس کے علاوہ اس بات پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مقدمات میں غیر ضروری التوا اور تاریخ پر تاریخ دینے کا کلچر بھی نظام انصاف پر عوامی عدم اعتماد اور مایوسیوں کو جنم دیتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل اور پارلیمان کو مل کر اس معاملے سمیت فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کیلئے جامع عدالتی میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔ 

انصاف معاشرے کی روح ہے، انصاف کا بول بالا نہ ہو اور معاشرے میں نا انصافی کا چلن عام ہوجائے تو انسانی سماج جنگل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہم اس ایکسرے کی مدد سے اپنے معاشرے کے حقیقی اسٹیٹس کا تعین کر سکتے ہیں!

Advertisement
Back to top button