خبریںسماجیسیاستصحتطرز زندگی

سنگین مقدمہ، سنگین بیماری….. پرویز مشرف کیسے واپس آئیں گے؟

عنایت شمسی

سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف جو طویل عرصے سے بیرون ملک خود ساختہ جلا وطنی گزار رہے ہیں، آج کل ایک بار پھر خبروں اور بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔

سابق صدر گزشتہ دنوں اس وقت اچانک خبروں میں آگئے، جب انہیں صحت زیادہ بگڑنے پر دبئی کے مقامی اسپتال میں داخل کیے جانے کی اطلاع آئی۔ اس خبر سے پہلے وہ میڈیا کے کیمروں، خبروں اور تبصروں سے کچھ عرصے سے اوجھل اور دور تھے اور آخری بار اس وقت سامنے آئے تھے، جب ان کو ایک خطرناک، نایاب اور لا علاج مرض لاحق ہونے کی خبر آئی تھی۔

قبل ازیں سابق صدر اگست 1202 میں بھی موضوع بحث بنے تھے، جب افغانستان سے وار آن ٹیرر میں سابق صدر کے اہم اتحادی امریکا نے اپنی افواج نکال لی تھیں، جس کے نتیجے میں طالبان کی افغانستان کے اقتدار پر واپسی یقینی ہوگئی تھی۔

پرویز مشرف نے 6102میں بیماری کے عذر پر بیرون ملک کا رخ کیا، اس دوران ان کے متعلق کئی خبریں آئیں، مگر وہ واپس نہیں آئے، اب اس حال میں ان کی واپسی کی خبریں زیر گردش ہیں کہ وہ لا علاج قرار پائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ پاکستان کی ایک سابق طاقتور شخصیت ہونے کے باوجود جلا وطنی پر کیوں مجبور ہوئے؟ ہوا دراصل یہ کہ 3102 میں ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف اقتدار میں آگئے۔ اس دوران سپریم کورٹ نے مشرف کے خلاف آئین شکنی کی پاداش میں سنگین غداری کا مقدمہ قائم کرنے کی حکومتی درخواست منظور کی تو اس کے بعد مشرف کیلئے مقدمات میں کارروائیوں سے بچنے کے امکانات کا دائرہ کم ہونا شروع ہوگیا۔

سابق صدر پر اس سے پہلے لال مسجد، اکبر بگٹی، لا پتا افراد سمیت کئی کیسز بنائے گئے، تاہم سنگین غداری کیس بننے کے بعد ان کیلئے حالات کا سامنا کرنا بڑا مشکل ہوگیا اور رفتہ رفتہ اس امر کا امکان بڑھتا چلا گیا کہ وہ اس کیس میں گرفتار کر لیے جائیں گے۔ یہ امر ان کے سابق آرمی چیف ہونے کے باعث ادارے کیلئے بھی امتحان کا باعث تھا۔ مشرف اب تک حالات کو نارمل سمجھتے آ رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فوجی پس منظر کے باعث وہ ہر صورت جیل اور قانون کی زد سے محفوظ رہیں گے، مگر اس بار مقدمہ ہی ایسا تھا کہ جس سے ان کو بچانا ادارے کیلئے بھی آسان نہ تھا، چنانچہ بیماری کا وختہ ڈال کر ان کی بیرون ملک منتقلی کی راہ ہموار کر لی گئی اور یوں وہ پاکستان سے دبئی اپنے گھر منتقل ہوگئے۔

پرویز مشرف کا کیریئر مکمل فوجی پس منظر کا حامل ہے اور وہ اپنا کوئی روایتی سیاسی حلقہ نہیں رکھتے، تاہم اپنے اقتدار کے دوران وہ ملک کے ایک دور افتادہ علاقہ چترال کے لوگوں کے دل جیت کر چترال میں اپنا حلقہ انتخاب بنانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ امر بہت سے لوگوں کیلئے حیرانی کا باعث ہوگا کہ چترال کے عوام کی ایک بڑی تعداد آج بھی پرویز مشرف سے محبت کا دم بھرتی ہے۔

اقتدار سے بے دخلی کے بعد جب پرویز مشرف سابق صدر اور ریٹائرڈ آرمی چیف کی حیثیت سے سیاسی طور پر غیر اہم ہوگئے تھے، یہ چترال ہی کے لوگ تھے، جنہوںنے پرویز مشرف کو قومی سیاست میں زندہ رہنے کا سہارا دیا، چنانچہ 3102 کے الیکشن میں چترال سے پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار شہزادہ افتخار محی الدین نے واضح اکثریت سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی اور پرویز مشرف کو سیاست میں سرگرم رہنے کا موقع فراہم کیا۔

دبئی منتقلی کے بعد بھی پرویز مشرف سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں متحرک رہے اور وہاں سے ٹی وی چینلز اور اپنی پارٹی کی کارنر میٹنگوں کے ذریعے فعال رہنے کی کوشش کی۔ 8102 میں ایک بار پھر ان کی پارٹی نے چترال سے الیکشن لڑا، تاہم اس بار ان کے غیر مقامی نامزد امید وار انتخاب جیتنے میں ناکام رہے۔

 چترال کے عوام میں پرویز مشرف کے ساتھ محبت آج بھی کم نہیں ہوئی، چترال کے لوگوں کی اکثریت آج بھی پرویز مشرف کو اپنا محسن سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پرویز مشرف کی وطن واپسی کی خبروں پر چترال میں ان کے حامی بھی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں۔

جہاں تک پرویز مشرف کی بیماری کا تعلق ہے، اس کے متعلق پہلی بار کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی کہ وہ ایک لا علاج اور نایاب قسم کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق پرویز مشرف

ایمیلوئیڈوسس نامی ایک نایاب اور سنگین بیماری کا شکار ہیں، اس بیماری میں اعضا اور ٹشوز میں غیر معمولی پروٹینز بننا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ سے اعضا ناکارہ ہونے لگتے ہیں۔

دس جون کو اچانک ٹوئٹر پر کچھ صحافیوں نے یہ خبر دی کہ پرویز مشرف انتقال کر گئے ہیں، یہ بڑی دھماکے دار ” خبر تھی، چنانچہ ٹوئٹر سے نکلی یہ خبر کوٹھوں چڑھ گئی اور چند ہی لمحوں میں ٹاک آف دی ٹاؤن بن گئی، الیکٹرانک میڈیا، ڈیجٹیل میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر طرف پرویز مشرف کی وفات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ تاہم کچھ ہی گھنٹوں بعد مشرف کے خاندان اور قریبی رفقا نے باقاعدہ خبر جاری کرتے ہوئے ان کی موت کی تردید کردی، تاہم اس کے ساتھ اس بات کی تصدیق کی کہ سابق صدر اسپتال میں داخل ہیں مگر وہ جس بیماری کا شکار ہیں، اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔

اب یہ اطلاع آئی ہے کہ پرویز مشرف نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن اپنے وطن میں گزارنا چاہتے ہیں، انہوں نے درخواست کی ہے کہ ان کی واپسی ممکن بنائی جائے۔ اس ضمن میں پرویز مشرف کی بیماری میں اضافے اور اسپتال میں داخل کیے جانے کی اطلاع سامنے آتے ہی وفاقی حکومت کی طرف سے اس بات کا عندیہ دیا گیا تھا کہ اگر مشرف واپس آنا چاہیں تو اس میں  کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔

ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کی جانب سے وطن واپسی کی خواہش سامنے آنے کے بعد مقتدر حلقوں نے ان کو بحفاظت وطن واپس لانے کیلئے راہ ہموار کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی نشریاتی ادارے کے حوالے سے زیر گردش ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے ایک ایئر ایمبولینس مشرف کو لانے کیلئے بھیجی جائے گی، جو انہیں ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق وطن واپس لائے گی۔

بلا شبہ پرویز مشرف ایک سنگین اور لا علاج بیماری میں مبتلا ہیں، تاہم ان کی صرف بیماری سنگین نہیں ہے، بلکہ ملک میں ایک بڑا سنگین مقدمہ بھی ان کا منتظر ہے، جس میں پشاور ہائی کورٹ کے مرحوم جسٹس سیٹھ وقار بعد وفات ان کی لاش کو بھی سزا دینے کا آرگومنٹ دے چکے تھے۔

سنگین بیماری اور سنگین قانونی مقدمے کے بیچ پھنسے ہوئے پرویز مشرف اگرچہ کوئی سیاسی اور سماجی اہمیت نہیں رکھتے اور پاکستانی معاشرتی اقدار کے تناظر میں انہیں ان کے سیاسی حریفوں کی جانب سے مثبت اور اچھے رویے کا ہی سامنا ہوگا، تاہم قانون کی نگاہ میں وہ بہرحال سنگین مقدمے کے مفرور مجرم ہیں۔

اگرچہ یہ طے نہیں ہوا کہ ان کی واپسی کب عمل میں آئے گی، تاہم یہ امر خارج از امکان نہیں کہ جلد منظر نامہ بدلتا نظر آئے گا اور انہیں ان کی خواہش کے احترام میں واپسی کیلئے قانون اور ان کے سیاسی حریفوں کی طرف سے این آر او دے دیا جائے گا۔ قدرت کے بھی عجیب کھیل ہیں، کل ایک طاقتور صدر کی حیثیت سے مشرف نے جن لوگوں کو این آر او دیا تھا، آج وہ سواد وطن کی مہک سونگھنے کیلئے ان کے این آر او کے محتاج ہیں۔

ترجمان پاک فوج کی جانب سے مشرف کی واپسی کی خواہش اور مشرف کے بڑے حریف نواز شریف کی جانب سے اپنی حکومت سے مشرف کی واپسی ممکن بنانے کا مطالبہ جیسے آثار مظہر ہیں کہ مشرف کی واپسی کو ان کی خواہش کے مطابق واپس لانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، تاہم یہ ابھی طے ہونا باقی ہے کہ مقدمات جیسی قانونی رکاوٹوں کی موجودی میں ان کی واپسی کیلئے کیا قانونی انتظام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کیلئے پردہ گرنے کی منتظر ہے نگا۔

مشرف کی بیماری کا لا علاج ہونا واضح ہو چکا ہے، تاہم یہ بیماری کب تک طول کھینچتی ہے، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا، البتہ ایک چیز کلیئر ہے کہ ان کا کردار تاریخ میں جا چکا، ان کے جانے کی دیر ہے کہ تاریخ اپنا فیصلہ بھی سنا دے گی!

Advertisement
Back to top button