ٹیکنالوجیخبریںسیاستکالم نگار

روس کو معاشی میدان میں جھکانے میں امریکی ناکامی

عنایت شمسی

یوکرین جنگ کے تناظر میں امریکا اور مغربی قوتوں کی جانب سے زبردست نفسیاتی حربوں اور حوصلہ شکن پابندیوں کے باوجود روسی کرنسی روبل نے ڈالر کے مقابلے میں استحکام کی جنگ جیت کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ہر طرح کے مشکل حالات میں سروائیو کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
یوکرین کی جنگ تیسرے مہینے میں داخل ہوچکی ہے، جنگیں ہمیشہ تباہی لیکر آتی ہیں، جنگوں میں صرف کمزور اور وہ فریق ہی متاثر نہیں ہوتا، جس پر جنگ مسلط کر دی گئی ہوتی ہے، بلکہ حملہ آور قوت بھی طاقتور اور برتر ہونے کے باوجود جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
2 مہینے بڑا عرصہ ہے، آج کی دنیا میں مضبوط سے مضبوط معیشت بھی اتنے عرصے تک جنگ کے اخراجات کا بوجھ نہیں سہار سکتی اور اس کا کچومر نکل جاتا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر دو مہینے تک یوکرین پر فل اسکیل جنگ مسلط کرنے اور بے تحاشا اخراجات کے باجود ایک رپورٹ کے مطابق روسی معیشت بڑی حد تک مستحکم ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ روسی کرنسی روبل بھی ڈٹ کر ڈالر کا مقابلہ کر رہی ہے اور معاشی جنگ میں روبل نےاپنی برتری برقرار رکھی ہوئی ہے۔
روس نے یوکرین پر یلغار کی تو مقابلے میں صرف ایک کمزور ریاست یوکرین نہیں تھی، روس کا ہدف اگرچہ یوکرین ہی تھا، مگر جنگ شروع ہوتے ہی یوکرین کے تمام مغربی اتحادی بشمول امریکا بھی سامنے آگئے۔ یوکرین مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا رکن نہیں، نہ ہی اس کا امریکا کے ساتھ باہمی فوجی تعاون کا کوئی معاہدہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی قوتیں روس کی شدید مخالف اور یوکرین کی حامی ہونے کے باوجود میدان میں آکر روس کیخلاف یوکرین کے شانہ بشانہ لڑنے کا کوئی قانونی جواز نہیں رکھتیں، جس کا متبادل یہ نکالا گیا ہے کہ روس کو کمزور کر کے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کیلئے مختلف تجارتی، معاشی اور فوجی پابندیوں کا ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے، مگر تمام تر اقدامات کے باوجود روس کو فوجی میدان سے پسپا کیا جا سکا ہے اور نہ ہی معاشی میدان میں اسے کمزور کیا جا سکا ہے، جس کا اندازہ اس رپورٹ سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روسی کرنسی روبل دنیا بھر میں بہترین کارکردگی دکھا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق روسی کرنسی کے استحکام اور مقابلے کی مضبوط صلاحیت کا عالم یہ ہے کہ روبل نے برازیل جیسی دنیا کی ایک اہم معیشت کی کرنسی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکا اور اس کے اتحادی روسی معیشت کو گرانے کی خاطر روسی کرنسی روبل کو ڈی ویلیو کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جیسے حال ہی میں امریکا نے خطے میں اپنے ایک اہم اتحادی بھارت کو روس کے ساتھ ڈالر کے بجائے روبل میں تجارت کرنے پر پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ ایسے تمام اقدامات کے باوجود ماہرین کے مطابق یہ امر حیران کن ہے کہ روبل کی اٹھان اور بلند پروازی میں کوئی خلل نہیں ڈالا جا سکا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنگ کے آغاز میں سخت پابندیوں کے باعث ڈالر کے مقابلے میں روبل کی قیمت گر کر ایک سینٹ سے بھی کم رہ گئی تھی لیکن عالمی معیشت اور کرنسیوں کے مد و جزر پر نگاہ رکھنے والوں نے دیکھا کہ اس ایک بار کی کمی کے بعد روبل نے گر کر خود کو کامیابی سے سنبھالا اور آج عالم یہ ہے کہ مارچ میں ہونے والی اس نمایاں ڈی ویلیوایشن کے صرف 2 مہینے بعد روبل کی قدر میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
مارچ کے پہلے ہفتے ڈالر کے مقابلے میں روبل کی قدر صرف 0.007 ڈالر رہ گئی تھی، یعنی ایک ڈالر میں 70 روبل آتے تھے، جو ڈالر کے مقابلے میں روبل کی قدر میں ایک تاریخی کمی تھی، مگر پھر روسی معاشی حکام نے روبل کو سنبھالنے کیلئے مربوط اقدامات کیے تو تب سے اب تک روبل کی قدر میں تقریباً 15 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس وقت اس کی قدر 0.016 ڈالر ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ایک ڈالر میں تقریباً 63 روبل خریدے جا سکتے ہیں، جو حیرت انگیز کامیابی ہے۔
روسی معاشی جادو گروں نے وہ کیا اقدامات بروئے کار لائے، جس سے روبل پھر سے ڈالر کے مقابلے میں سرخرو ہوا، اس سوال کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اہم وجہ روس کی جانب سے ملک میں سخت کیپٹل کنٹرول کا نفاذ ہے، چنانچہ سخت مالیاتی انتظام کے ذریعے روس نے ایک ایسے وقت میں اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو کم ہونے سے بچایا جب اسے ان کی بڑی ضرورت ہے۔ یوں روس نے نہ صرف سرمایہ کاری اور سرمائے کی کمی کو پورا کیا بلکہ یوکرین پر حملے کے لیے مطلوبہ رقم کا بھی بندوبست کیا، جس کے نتیجے میں آج روس نہ صرف فوجی میدان میں ڈٹ کر کھڑا ہے، بلکہ اس نے کرنسی کی ڈی ویلیوایشن کے ذریعے اپنی معیشت کو کمزور کرنے کی جنگ میں بھی سرخروئی حاصل کی ہے۔

Advertisement
Back to top button