ٹیکنالوجیخبریںسفر کہانی

پی آئی اے کی تباہی۔ جذبے کا بیل آؤٹ درکار ہے!

عنایت شمسی

پاکستانی عوام کو جہاں اور بہت سے مسائل کا سامنا ہے، وہیں ایک بڑا مسئلہ پی آئی اے اور قومی فضائی سروس کی ابتری کا بھی ہے۔ عشروں سے قوم یہی سنتی آ رہی ہے کہ خسارہ ہے، پی آئی اے سفید ہاتھی بن گیا ہے، تباہی کے دہانے کھڑا ہے، ملازمین کی فوج کا غیر ضروری بوجھ ہے، جس نے ادارے کا بھٹا بٹھا دیا ہے وغیرہ۔

اس بات کے حوالے بھی بڑے سنے سنائے جاتے ہیں کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کا گولڈن ایرا بھی گزرا ہے، جس کے دوران پی آئی اے کا فضاؤں پر راج رہا ہے، کئی ملکوں کی فضائی کمپنیوں کو مستحکم کرنے اور اٹھانے میں پی آئی اے کا کردار رہا ہے۔

بالکل درست ہے، ماضی میں پی آئی اے بہت اچھا دور گزار چکی ہے، مگر آخر اب عشروں سے اس کو ایسا کونسا آسیب چمٹ گیا ہے کہ پی آئی اے اپنی ماضی کی اڑانیں ہی بھول گیا ہے۔ اس کا خسارہ ہے کہ قابو میں آنے کا نام نہیں لے رہا۔

روز پی آئی اے کی ابتری کی کہانی سناتی کوئی نہ کوئی خبر میڈیا پر زیر بحث آجاتی ہے، آج بھی یہ خبر زیر گردش ہے کہ پی آئی اے کی پرواز میں مسافروں کا سستا کھانا سرو کیا گیا، جس پر مسافروں نے برے برے منہ بنائے اور دھیمے سروں میں احتجاج بھی کیا۔

ایسے میں پڑوسی ملک افغانستان جو کئی دہائیوں سے ایک تباہ حال اور جنگ زدہ ملک ہے، کی قومی فضائی کمپنی آریانا ایئرلائن نے افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد اب تک کی کمپنی کی کارکردگی اور کاروبار کے متعلق بیان جاری کیا ہے۔ افغان وزارت اطلاعات کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق آریانا افغان ایئر لائن کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں کمپنی کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

بات اتنی ہی ہوتی تو اسے سیاسی بیان کہہ کر نظر انداز کیا جا سکتا تھا، مگر بیان میں آگے کہا گیا ہے کہ آمدن میں اطمینان بخش اضافے کے بعد کمپنی اب مزید چار طیارے خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کیلئے بر وقت فضائی سفر کا بندوبست کیا جا سکے۔

ایک ہماری ماضی میں کہیں راج کرتی پی آئی اے ہے، جس کا حال یہ ہے کہ اس کے اخراجات کا گھاٹا کم کرنے کیلئے آئے دن اس کے روٹس کم کیے جا رہے ہیں، صرف زیادہ سے زیادہ منافع بخش روٹس کو باقی رکھا جا رہا ہے۔ نیز طیارے کم کیے جا رہے ہیں، وجہ یہ ہے کہ کئی طیارے اپنی طبعی عمر پوری کرکے رسک پر ہیں اور کبھی ایندھن کے اخراجات بچانے کیلئے بھی طیارے گراؤنڈ کیے جاتے ہیں۔

آریانا ائیر لائن افغانستان کی قدیم ترین فضائی کمپنی ہے، یہ کمپنی 5591ء میں قائم ہوئی اور اس نے افغانستان کے سیاسی اور سماجی حالات کے اتار چڑھاؤ کے باعث عروج و زوال کے مختلف ادوار دیکھے ہیں۔

طالبان کے پہلے دور میں بھی آریانا کی سروس جاری رہی، تاہم اس وقت اس کی مینجمنٹ اور سروس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، جس کی بنا پر آریانا نے کاروبار اور خدمت کے میدان میں کوئی بڑا مقام پیدا نہیں کیا۔

امریکی قبضے کے بعد آریانا ایئر لائن کی مینجمنٹ کو عالمی معیارات کے مطابق اسمارٹ بنانے کی بڑی حد تک کوشش کی گئی اور اس کا انتظامی اور سروس اسٹرکچر بھی بہتر کرنے پر خاص توجہ دی گئی، جس سے کمپنی ملکی سطح پر اچھی خدمات کی فراہمی کی سطح پر آگئی۔

طالبان کی دوبارہ آمد کے بعد کمپنی کو خدشہ تھا کہ پہلے دور کی طرح ایک بار پھر کمپنی کو نظر انداز کیا جائے گا اور اس کی سروس اور انتظامی امور پر توجہ نہیں دی جائے گی، نیز یہ خدشہ بھی تھا کہ کمپنی کو پہلے کی طرح شاید ریاستی سرپرستی اور اونر شپ مہیا نہ ہوسکے۔

تاہم نئی طالبان انتظامیہ نے آریانا ایئر لائن کو مکمل تعاون کی پیشکش کی اور اس کے تمام عملے کو آزادانہ فضا میں پورے اعتماد کے ساتھ اپنی خدمات جاری رکھنے کی تاکید کی۔ اس کے علاوہ طالبان کابینہ اور ہوا بازی کے محکمے نے ہوا بازی کے ماہرین اور کمپنی کے انجینئرز کو فضائی سروس کا معیارِ خدمت اور اسٹرکچر بہتر کرنے کا ٹاسک دیا، جس سے کمپنی کے اعتماد میں اضافہ ہوا اور آج کمپنی استحکام کے اس اسٹیج پر آپہنچی ہے کہ اس نے مزید چار طیارے مسافروں کو سروس فراہم کرنے کیلئے خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

ایک تباہ حال اور ہنوز جنگ کا ملبہ جھاڑ کر اٹھنے کی کوشش کرنے والے ملک کی فضائی کمپنی استحکام کی بلندیوں کی طرف ٹیک آف کر رہی ہے، جبکہ اس کے پہلو میں موجود ایک مکمل اسٹیبلش ملک کی فضائی کمپنی کا حال یہ ہے کہ وہ مسلسل زوال کی راہ پر گامزن ہے۔

سوچنے کی بات ہے، پیشہ ورانہ مہارت، وسائل، ماہر انجینئرز، اسٹرکچر اور تجربے میں دیکھا جائے تو دونوں ملکوں کے فضائی اداروں کا کوئی موازنہ نہیں ہے، اس کے باوجود جس کے پاس زیادہ وسائل اور زیادہ ماہرین موجود ہیں، وہ تباہی کا شکار کیوں ہے؟ اور جو بالکل بے وسیلہ ہے، وہ کامیابی کی راہ پر کیوں گامزن ہے؟

فرق کہاں ہے؟ فرق در اصل جذبے کا ہے، ماضی میں پی آئی اے کا جو گولڈن ایرا گزرا ہے، وہ جس جذبے کا حاصل تھا، آج وہی جذبہ تعمیر اور جذبہ صادق آریانا کی اٹھان میں کارفرما ہے۔ اب یہ جذبہ پی آئی اے کو بیل آؤٹ پیکیج، سبسڈی، قرض، ٹیکسز، طرح طرح کی مراعات وغیرہ کے ذریعے تو فیڈ نہیں کیا جا سکتا۔ سو دیکھتے رہئے، جذبہ تعمیر پڑوس کے تباہ حال ملک کی فضائی کمپنی کو کن بلندیوں پر لے جائے گا اور ہماری پی آئی اے حج روٹ پر مناپلی کے آکسیجن ٹینٹ میں کب تک اپنی سانسیں بحال رکھ سکے گی!

Advertisement
Back to top button