اپر چترالکالم نگارلاسپور

آن لائن نظام تدریس اور وادی لاسپور

خلیل احمد

آن لائن نظام تدریس اور وادی لاسپور

گزشتہ سال سے پاکستان سمیت دنیا کا ہر ملک کورونا کی موذی مرض سے برسر پیکار ہے۔
مغربی ممالک جن کو ہم دن رات گالیاں اور بددعائیں دیتے نہیں تھکتے،ہماری دشنام ترازیوں سے بےنیاز کسی اور ہی جستجو میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔جہاں ہمارے تعلیمی اداروں کے قفل ان دو سالوں میں مکمل زنگ آلود ہو چکے ہیں وہی خبر ہے کہ اس سال کے اختتام کے ساتھ ہی اکثر مغربی ممالک میں کورونا وائرس ماضی کا حصہ ہوگا۔
یوٹرن اور عدم استقلال کے لئے بدنامی کی حد تک مشہور تبدیلی سرکار نے خلاف معمول تعلیمی نظام کو مفلوج کرنے کا مصمم ارادہ "پال” رکھا ہے۔پچھلے سال سے اب تک کے تقریباً تمام عرصے ملک بھر میں تعلیمی ادارے مسلسل مقفل رہے۔ترقیافتہ دنیا میں جب آن لائن تدریسی نظام رائج کیا گیا تو کپتان نے بھی بلا جھجک اسی نظام کو اپنانے کا تہیہ کر لیا۔ستم ظریفی یہ کہ اس سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل فیصلے کو نافظ کرنے سے قبل یہ تک معلوم کرنا گوارا نہ کیا گیا کہ ملک کے کتنے فیصد حصے میں ابھی تک انٹرنٹ تک رسائی ممکن ہے اور کہاں ابھی تک انٹرنیٹ یک سنگے اور پرستان کی کہانیوں کی طرح محض ایک کہانی سمجھی جاتی ہے۔
کہتے ہیں کبوتر بلی کو دیکھ لے تو آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے خطرہ ٹل گیا۔حالیہ حکومت بھی کورونا وائرس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل کر یہ سمجھتی ہے کہ اس کا "بھوت” کبھی رفوچکر ہو جائے گا۔ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق پاکستان آئندہ سات سالوں میں بھی اپنے تمام شہریوں کو ویکسینیٹ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔جہاں باقی دنیا کورونا سے دو دو ہاتھ کرنے میں مصروف ہے وہی ہم کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے کا ورد تو الانپتے ہیں لیکن لڑنے کیلئے ہمارے پاس ویکسیکن کا ہتھیار ہی نہیں۔مرزا غالب نے غالباً اسے موقعے کیلئے کہا تھا؛

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے ائے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

خیر یہ گلے شکوئے تو ہوتے رہیں گے۔ہمارا اصل موضوع وادی لاسپور میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی ہے جو حکومت کے اسے فیصلے کا "ثمر” ہے جس کا نوحہ اوپر میں پیش کر چکا ہوں۔
پچھلے کچھ سالوں میں چترال کے اندر انٹرنیٹ کی بحالی کیلئے کافی کام ہو چکا ہے۔یہاں تک کہ وادی لاسپور میں بھی پی ٹی سی ایل کی طرف سے فائیبر آپٹکس کا کام پچھلے سال کے اوائل میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ستم یہ کہ اس غیر معمولی پیش رفت کے باوجود حکومتی کارندے کام کو "ادھورا” چھوڑنے کی "تاریخ” دھرا رہے ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وادی لاسپور اپر چترال کا ایک بڑا علاقہ ہے جس کے نوجوانوں کو یوں یک قلم نظر انداز کرنے کا فیصلہ کسی طور مبنی بر انصاف نہیں۔
ہم پہلے بھی مختلف پلیٹ فارمز پر اس صریح بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی حالات کے تقاضوں کے مطابق اپنا پیغام حکام بالا تک پہنچاتے رہیں گے۔
لہذا ہم ایم این اے چترال مولانا عبدالاکبر چترالی صاحب، ایم پی اے جناب ہدایت الرحمن اور وزیر زادہ صاحب سے اپیل کرتے ہیں کہ پہلی فرصت میں ہی اس مسئلے کے حل کی کوشش کریں۔
اس کے علاوہ میں وادی لاسپور کے غیور نوجوانوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ پاکستان سیٹیزین پورٹیل” کے ذریعے لاسپور میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی پر زیادہ سے زیادہ درخواستیں جمع کریں تاکہ ہماری آواز براہ راست حکام بالا تک پہنچ سکے۔
آج سیاہی اور پینسل سے کھیلتے بچے ہی کل کے معمار ہیں۔ان جوانوں کو تعلیم جیسی بیش بہا نعمت سے بےبہرہ رکھنا ہمارے اجتماعی تابوت میں آخری کیل ٹھونکے جانے کے مترادف ہے۔”دو نہیں ایک پاکستان”کا نعرہ بلند کرنے والے اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنا نعرہ ہی واپس لے لیں۔لحظہ بہ لحظہ قوم کو نہ گھبرانے کی تقلین کرنے والے ہینڈ سم وزیر اعظم کی شان میں یہ اپیل ہے کہ ترکی کے ڈرامے دیکھنے سے فرصت ملے تو "ایک نظر ہم پر بھی ہو”۔

کرسی ہے، تمھارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button