تاریخ اور ادبثقافت

محمد حمید خان سرنائی اور بانسری کے بے تاج بادشاہ

سردار علی سردار

محمد حمید خان سرنائی اور بانسری کے بے تاج بادشاہ

محمد حمید خان وادی چترال کے بلندوبالا پہاڑوں اور دیو ہیکل گلیشیر کے دامن میں واقع خ وبصورت اور رومانوی گاؤں سنوغر میں 1968 ء کو زوندرے قبیلے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سنوغر ہی میں حاصل کی اور 1988 ء میں چترال سکاؤٹ میں بطورِ بانسری اور سُرنائی کے فنکار بھرتی ہوئے ۔ سولہ سال تک اپنی جوانی کے خوبصورت آیام چترال سکاؤٹ کے زیرِ نگرانی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بانسری اور سُرنائی کے فن میں نمایاں کردار ادا کیا اور چترالی ثقافت میں اس فن کو ایک الگ مقام دے کر 2004 ء کو وہاں سے سبکدوش ہوگئے ۔ حمید خان گورنمنٹ کی سروس سے تو فارع ہوگئے لیکن اپنے ہنر اور اعلی ٰ اخلاق کی وجہ سے لوگوں کے دلوں کے اور بھی قریب تر ہوگئے۔ لوگ آپ کو پسند کرتے ہیں اور آپ سے بےپناہ محبت کرتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی سُرنائی اوربانسری کی خوبصورت اور دل کو لبھا دینے والی آواز کے بےتاج بادشاہ کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ نے گزشتہ دو عشروں سے زیادہ چترال کی ثقافت اور موسیقی کی دنیا میں اپنا نام روشن کیا ہے ۔

آپ بچپن ہی سے موسیقی اورسُرنائی کے دُھن سے دلچسپی رکھتے تھے۔اسی شوق اور دلچسپی نے آپ کو پوری زندگی اس سُرنائی کی خوبصورت آواز کے ساتھ اُس کا ناطہ جوڑ ے رکھا۔ دنیا کا دستور یہ ہے کہ ہر فن اور ہنر استاد کی تربیت اور محنت سے ہی حاصل کی جاتی ہےلیکن محمد حمید خان نے اس فن کو اپنی ماں سے ہی سیکھ لیا ہے۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ Behind Every great man there is a woman ہر عظیم انسان کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہے۔یہی مثال محمد حمید خان کے لئے دی جاسکتی ہے۔آپ کی زندگی میں رونق اور بہار لانے والی آپ کی سوتیلی ماں تھی جس نے لڑکپن میں ہی آپ کے اندر وہ صلاحیتیں اور خوبیاں دیکھی تھیں جن کو پیار و محبت ،محنت اورذاتی دلچسپی سے نکھارنے میں اپنا کردار ادا کیا۔آپ کی والدہ محترمہ خود بھی بانسری بجانے میں مہارت رکھتی تھی اور کبھی کبھار خواتین کی محفلوں میں اپنے فن سے اہل محفل کو محضوظ کیا کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی مامتا کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کو بھی مستقبل کے لئے ایک عظیم فنکار بنانے میں شب و روز محنت کی ۔ اس کے علاوہ موصوف ٹیپ ریکارڈ رسے بھی بانسری کے مختلف قسم کے دُھن سن لیا کرتے تھےاور اُن دُھنوں کو اپنی بانسری میں استعمال کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔گاؤں میں جب بھی موسیقی کی کوئی محفل (اشٹوک ) ہوتی تھی تو محمد حمید خان اپنی بانسری لیکر وہاں پہنچتے اورحاضرینِ محفل کو سُرنائی کی خوبصورت دُھن سے متاثر کردیتے۔ کہتے ہیں کہ مرحوم کرنل مراد جب پہلی دفعہ کسی محفل میں آپ کو بانسری بجاتے ہوئے سن لیا تو آپ کی اس صلاحیت سے متاثر ہوکر فوراََ آپ کو چترال سکاوٹ میں ریگولر سپاہی بھرتی کیا جہاں وہ دیانت داری سے اپنے فرائض بہ حسنِ خوبی انجام دیئے۔

چترال کی ثقافت میں جب بھی سُرنائی اور بانسری کی بات ہو تی ہے تو استاد تعلیم خان کے بعد شائد ہی کوئی بندہ ایسا ہو جو حمید خان کے نام سے واقف نہ ہو۔چترال کے ہر کونے میں موسیقی سے شعف رکھنے والےمردو زن سبھی آپ کےفن کے دلدادہ ہیں۔خصوصاََ نوجوان طبقہ حمید خان کی سُرنائی اور بانسری کے دلنشین اور دلاویز آواز سے جب بھی سنتے ہیں تو بے ساختہ مستی اور سرور کے عالم میں محوِ رقصان ہوتے ہیں۔چترال کی ثقافت میں مئی سے لیکر ستمبر تک شادی بیاہ کی تقریبات عروج پر ہوتی ہیں۔ ان تقریبات میں اشٹوک اور موسیقی کی محفلیں منعقد ہونا چترالی ثقافت کی قدیم روایت کا حصّہ رہا ہے۔آج بھی لوگ اپنی اس پرانی روایت کو مذید ترقی دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں جہاں سُرنائی اور بانسری کی دُھن محفل کو اور بھی چار چند لگادیتا ہے۔   

محمدحمید خان اپنی ملازمت کے دوران بھی چترال سکاؤٹ کے ہردلعزیز فنکار رہے ہیں وہ نہ صرف چترال وادی کے اندر اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے ہیں بلکہ ہنزہ، گلگت،کراچی،دوبئی،پشاور اور اسلام آباد میں بھی چترال لوک ورثہ کی نمائندگی کرتے ہوئے شرکت کی ہے اور بہت سارے انعامات کے ساتھ ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ گویا آپ نے دو عشروں سے زیادہ کھوار ثقافت کو فروع دینے میں صفِ اوّل کے فنکاروں میں شامل ہیں۔ 

ریٹائیرمنٹ کے بعد جب موصوف اپنے گھر آئے تو اپنے اس پیشے کو اور بھی بامِ عروج تک پہنچایااور مختلف ثقافتی پروگراموں کے علاوہ شادی بیاہ کے بڑی بڑی محفلوں میں شرکت کرکے اُن کے حسن اور رونق کو دوبالا کردیتے ہیں۔گویا اس قسم کی محفلیں حمید خان کی شرکت کے بغیر نامکمل ہیں۔ اس لئے اس قسم کے پروگرام منعقد کرنے سے پہلے حمید خان کی شرکت کے مطابق پروگرام کی منصوبہ کی جاتی ہے۔آپ نے یہ فن صرف اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے شاگردوں کے ذریعے دوسروں کو منتقل کرنے کے لئے کوشش کر تا رہا ہے ۔ آپ نے کوئی پرائیویٹ ادارہ قائم کیا ہے اور نہ ہی حکومتی سطح پر یا این جی اوز کی طرف سے اُسے کوئی سرپرستی حاصل ہے۔تاہم اپنی ذاتی جستجو سے اپنے شاگردوں کو تربیت دے رہے ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں آپ کا اپنا بیٹا وقار محمد بھی ہے جس نے آپ کے زیرِ سایہ تربیت حاصل کرکے اسی فن کی وساطت سے ہی پاک آرمی میں ریگولیر فوجی کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی ہے۔ دوسرا شاگر داشفاق ہے جس نے بھی اپکی تربیت سے فیض حاصل کرکے چترال سکاؤٹ میں ملازمت مکمل کرکے اس سال سبکدوش ہوگئے ہیں۔تیسرا شاگرد چترال باڈر میں میوزیک بینڈ میں بھرتی ہوکر اپناکام انجام دے رہا ہے۔جبکہ آپ کا چوتھا شاگرد آیاز ہیں جو گرم چشمہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ چترال سکاؤٹ میں اس ہنر کی وساطت سے بھرتی ہوا تھا لیکن پانچ سال ملازمت کرنے کے بعد سرکاری عہدے کو چھوڑ کر اپنے لئے پرائیویٹ کام کر رہا ہے ۔ 

 تاہم کامیٹ کی طرف سے 2003 ء میں بونی کے مقام پر 2 گروپس کو ٹریننگ دینے کے لئے آپ کی خدمات اور ہنر سے استفادہ کیا گیا۔آپ نے تین گروپس کو دو مہینے تک ٹریننگ دی اور ان کو اس فن سے روشناس کرایا ۔ اس کے بعد پھر اسی کامیٹ کی طرف سے لٹکوہ کےخوبصورت گاؤں سوسوم میں نوجوانوں کو تربیت دینے کے لئے آپ کی پیشہ ورانہ خدمات حاصل کی گئی ۔آپ نے ڈھائی مہینہ سوسوم میں رہے اور باقائدہ نوجوانوں کو تربیت دی جس کے نتیجے میں وہاں کے تین گروپس اس فن سے آشنا ہوگئے اور اب وہ یہ ہنر بہ حسنِ خوبی انجام دے رہے ہیں۔ 

مختصر یہ کہ محمدحمید خان نے نہ صرف فنِ موسیقی کی ثقافت کو زندہ رکھا ہے بلکہ اس کو جدید دور کے مطابق اور بھی ترقی دی اور اپنے شاگردوں کو اس ہنر سے معاشی استفادہ حاصل کرنے کی راہ دکھائی اور موسیقی کی ثقافت کو اگلی نسل تک کامیابی سے پہنچایا ۔ چترالی ثقافت کے لئے آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

العرض، محمدحمید خان نے بغیر کسی مناسب تعلیم و تربیت اور سرپرستی کے ذاتی ذوق و شوق سے فنِ موسیقی (سرنائی) کو اختیار کیا۔ اپنی فطری صلاحیت کے بل بوتےپر اس میں کمال حاصل کیا۔اور مذید براں اس فن کو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ترقی دی ہے۔روزگار ی کے اس دور میں اسے روزگار کا ذریعہ بھی بنایا۔ نیک نیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئےاس فن کو اپنے شاگردوں کو سیکھایا۔آپ نے اس فن ہی کے ذریعے چترال سے باہر پاکستان کے مختلف علاقوں میں جاکر بین الملکی پروگرامات میں شرکت کرکے چترالی ثقافت کی پہچان کرائی۔ اس وجہ سے چترالی ثقافت کو پزیرائی بھی ملی اور شہرت بھی ملی۔

لہذا یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ محمدحمید خان نے اپنے حصے کے طور پر حسین وادی سنوغر اور چترالی ثقافت کی گراں قدر خدمات انجام دی۔ خاص کر زوال کے شکار ثقافت کی ایک نازک و حسین صنف موسیقی کے احیاءکو جلا بخشی۔ لہذا اُس کی اس اہم خدمت کو تاریخ میں ہمیشہ داد و تحسین کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button