کالم نگار

محکمہ جنگلات متوجہ ہو.

حمید الرحمن حقی

محکمہ جنگلات متوجہ ہو.

 

ایک طرف حکومت پاکستان ماحول دوست پالیسی، قدرتی افات سے بچاو، جنگلات کی تحفظ اور بلین ٹری سونامی کے نام پر کھربوں روپے کے نئے پودے لگانے اور ماحولیاتی الودگی سے بچاو کیلیے کوششیں کرنے کے دعوے کر رہی ہے، وہیں ملک میں موجود محکمہ جنگلات کے اعلی حکام پہلے سے موجود پرانے اور نایاب درختوں کی بیخ کنی اور بے تحاشہ کٹائی پر تماشائی بنے ہوئے فنڈز اور سہولیات کے مزے لوٹ رہے ہیں،اور کسی ایک عہدہ دار کو بھی یہ توفیق نصیب نہیں ہو رہی کہ وہ اس اہم مسلے کی ادراک کیلیے میدان عمل میں آئے..


زیر نظر تصاویر اپر چترال کے علاقے سنوغر کی ہیں جہاں کے مقامی باشندے اپنی عمارتی اور سوختنی لکڑی جیسی بنیادی ضروریات کو پورے کرنے کے واسطے علاقے میں سینکڑوں اور ہزاروں سالوں سے موجود اخروٹ، توت، شہتوت اور دوسرے نایاب قسم کے درختوں کی بیخ کنی پر مجبور ہوچکے ہیں.جبکہ بعض مقامی ماحول دوست اور درد دل رکھنے والے حضرات ان نایاب اور تاریخی درختوں کو ضائع ہونے اور بیخ کنی سے بچانے کیلیے اپنی مدد آپ کے تحت رضاکارانہ طور پر گزشتہ کئی سالوں سے کوششیں کرتے آ رہے ہیں تاہم حکومت اور دوسرے اہم اداروں کی جانب سے عدم توجہ و دلچسپی کے باعث چند سالوں سے یہ مقامی رضاکار بھی تھک ہارے ہوئے نظر آ رہے ہیں. جسکی وجہ سے اب ان تاریخی اور نایاب درختوں کی کٹائی حد سے تجاوز کر چکی ہے..


لیکن ان سب کے باوجود مقامی اداروں اور محکمہ جنگلات کے پاس اب بھی وقت ہے کہ ادارے، ملک اور علاقے کی وسیع تر مفاد میں اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروے کار لاتے اور ماحول دوست پالیسیوں کو اپناتے ہوئے علاقے کی حسن کو بحال رکھنے اور ہزاروں سالوں سے موجود ان نایاب درختوں کی تحفظ کیلیے بروقت اپنی خدمات پیش کریں… ورنہ عنقریب یہ تمام پرانے اور نایاب درخت علاقے میں ناپید ہو جائیں گے. تو پھر ہم اور ہماری آنے والی نسلیں صرف تصاویر میں ہی ان درختوں کو دیکھ سکیں گے…

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button