سماجیکالم نگار

مایوسیوں کے نرغے میں

نثار احمد

تلخ و شیریں

میں اپنی زندگی کی کل چھتیس بہاریں دیکھ چکا ہوں شعوری پختگی کی عمر کو پہنچنے میں ابھی تین چار سال باقی ہیں ۔ اپنے ان چھتیس سالوں میں گزشتہ بائیس سالوں سے میں اخبارات میں یہی پڑھ اور خبروں میں یہی سن رہا ہوں کہ پاکستان نازک موڑ سے گزر رہا ہے ۔ممکن ہے کہ مجھ سے بڑی عمر والے اپنی عمر کے حساب سے اس سے بھی پہلے سے یہ سنتے آ رہے ہوں۔
کل پرسوں تک ہم کبھی خلوت اور جی ہی جی میں، تو کبھی بزمِ یاراں میں بآواز بلند مذاق کرا کرتے تھے کہ کیسا نازک موڑ ہے جو ختم کر نہیں دے رہا۔ موڑ نہ ہوا دنیا کے ایک سرے کو دوسرے سرے سے ملانے والا کوئی جی ٹی روڈ ہوا جہاں سے مملکت خداداد گزر کر نہیں دے رہا۔ اگر موڑ ہوتا تو ایک نہ ایک دن ضرور گذر جاتا۔ گرتے پڑتے سہی ، ڈگمگاتے ڈنواڈول ہوتے سہی ۔۔ گذر تو جاتا ۔
بہرحال اب ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان واقعی میں نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ جس موڑ کا ہم سنتے آ رہے تھے اس موڑ سے گزرنے کا چیلنج اب درپیش ہے۔ موڑ ہی خطرناک نہیں، گرنے کی صورت میں نیچے کھائی بھی کافی گہری اور پرخطر ہے۔ جہاں سے نکلنے میں صدیاں اگر نہ بھی لگیں، عشرے اور دہائیاں ضرور لگیں گے ۔
اس وقت پاکستان کی تصویر جن دگرگوں معاشی حالات سے مرکب و مزین دکھائی دے رہی ہے انہیں دیکھ کر واقعی میں ہول آنے لگا ہے۔ معاشی مستقبل کے اس خطرناک نقشے کو دیکھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اللہ بھلا کرے خان صاحب کا، بہت ساری خامیوں کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی ان کی ذات سے جڑی ہوئی تھیں۔ یہ ان کی خوبی ہی تھی کہ ایسے حالات میں عوام کو کم ازکم ڈرنے اور خوف زدہ ہونے سے روک کر اچھے حالات کی امید دلاتے تھے۔ اب "شہباز اینڈ کو” ایسا بھی نہیں کر رہا ۔ اب واقعی میں ڈر لگنے لگا ہے ۔ یہ ڈر کمرتوڑ مہنگائی کا ہے ۔ جان لیوا غربت کا ہے۔ اشیاء صرف کے عام آدمی کے لئے ناقابلِ رسائی ہونے کا ہے۔ بنیادی ضروریات ِ زندگی کے مفقود ہونے کا ہے۔ جس نازک موڑ سے گزشتہ کئی عشروں سے ڈرایا جا رہا تھا ایسا لگتا ہے کہ وہ موڑ اب آ پہنچا ہے خاکم بدہن اگر اس موڑ سے گزرتے ہوئے ملک کو معاشی لحاظ سے کچھ ہوا تو سارا ملبہ متوسط و غریب طبقے پرگرے گا اُس طبقے پر ہرگزنہیں جس نے اس ملک کو اس نہج پر پہنچایا ہے۔
ملک کو اس حالت تک پہنچانے والوں کا کیا جاتا ہے؟ اگر ان کے بینک اکاؤنٹ میں وافر مقدار میں ڈالرز ہیں تو ان کی الماریوں میں گرین کارڈز بھی ہیں ۔ ایک طرف اشرافیہ نامی یہ مخلوق وافر مقدار میں سرمائے سے مالامال ہے تو دوسری طرف ملک کے پوش علاقوں میں ان کی جائدادیں بھی ہیں ۔
ایسے خراب معاشی حالات پر مایوسی پھیلانے کی ضرورت ہرگز نہ ہوتی اگر ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی سیاسی قیادت یک رخ و یکسو ہوتی ۔ ایک طرف دگرگوں اور ناگفتہ بہ معاشی حالات ہیں اور دوسری طرف باہم دست و گریباں اور گھتم گتھا ہوتے سیاست دان ہیں۔

کیا حزب اقتدار ، کیا حزب اختلاف، سبھی کی سیاست تضادات ، پارٹی مفادات اور نہ بوجھے جانے والی پہیلیوں سے بھرپور ہے۔ مفاد پرستی سے کوئی بھی مبرا نہیں ہو سکتا لیکن ظاہر ہے کہ وقت آنے پر اجتماعی مفاد کے لیے ذاتی مفاد، اور ملکی مفاد کے لیے پارٹی مفاد کو پس پشت ڈالنا ہوتا ہے اور پارٹی مفاد کو ملکی مفاد پر قربان کرنا ہوتا ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ
یہاں حزب اقتدار کو خالص ملکی مفاد عزیز ہے اور نہ ہی حزب اختلاف کو ۔ ملکی مفاد ان کے پیشِ نظر ہوتا ہو گا لیکن ترجیحی درجے میں ہرگز نہیں ، بلکہ ثانوی درجے میں۔ اگر سیاسی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کو اولیت دیتے تو تو اسمبلی کو ایسی بے توقیر بناتے؟ ملکی خزانے کے ساتھ ایسا کھلواڑ کرتے؟ حاشا و کلا ۔
سیاسی تضاد کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ حزب ِ اختلاف (پاکستان تحریکِ انصاف) کے اراکین ِقومی اسمبلی نے مہینوں پہلے استعفے دیے ۔ نہ صرف استعفے دیے بلکہ میڈیا میں آ کر حکومت پر خوب گرجنے برسنے بھی لگے کہ استعفے قبول کیوں نہیں ہو رہے ۔جب اسپیکر نے سچ مچھ میں استعفے قبول کرنے کی ٹھان لی تو پاؤں پڑنے پر آ گیے ایک دو قسطوں میں چند اراکین کے استعفوں کی "قبولیت” دیکھ کر باقی ماندہ استعفے بچانے کے لیے پہلے اسپیکر کے چیمبر تک گئے یہاں جب یہاں کچھ نہ ملا تو سیدھا سیدھا اسپیکر کے گھرپہنچ گٰے۔ اسپیکر کے گھر سے محروم لوٹنے کے بعد منت سماجت کرنے الیکشن کمیشن آفس پہنچ گئے ۔ جب استعفے واپس لینے کے لیے اتنے جتن کرنے، ترلے کرنے اور پاپڑ بیلنے ہی تھے تو دیا ہی کیوں تھا ؟
اسی طرح سیاسی مفاد کی بجائے اگر قومی مفاد پیش نظر ہوتا تو حکومت اپوزیشن کے استعفوں کو ٹال کر قومی خزانے کو چونا لگانے کا فریضہ ہرگز سرانجام نہ دیتی ۔ مطلب ساڑھے نو مہینے تک حکومت اربوں کے اخراجات بغیر کسی مد کے فضول میں کرتی رہی ۔ حکومت نو مہینوں تک ڈیڑھ سو اراکین کی تنخواہ سمیت جملہ اخراجات صرف اس لیے عوام کی جیبوں سے پوری کرتی رہی کہ مناسب وقت میں قبول کر کے سیاسی فائدہ کشید کیا جائے گا ۔
یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے سیاست میں جو انتشار، افتراق اور اختلاف درآیا ہے وہ کم ہونے کی بجائے دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام آ ہی نہیں سکتا۔ معاشی استحکام کا راستہ سیاسی استحکام کی گزرگاہ سے ہو کر جاتا ہے۔ سیاسی انارکی اور انتظامی طوائف الملوکی ، مملکتی بے چینی جتنی زیادہ ہو گی معاشی تنزلی اسی حساب سے برقرار رہے گی۔ معاشی ترقی کے لیے سیاسی استحکام لابدی و ناگزیر ہے ۔
لیکن وہی ڈھاک کے تین پات، کیا حزب اختلاف کیا حزب اقتدار سبھی سیاسی انتشار کو بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ نفرت کی آگ پر پانی ڈال کر ملک کا سوچنے کے بجائے سب پٹرول چھڑک کر اسے مزید شعلہ بار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں بندہ مکمل طور پر مایوسیوں کے نرغے میں خود کو پھنسا ہوا محسوس نہ کرے تو کیا کرے؟۔ اب تو دور دراز تک امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچانے والے جملہ سیاستدانوں کو ہدایت عطا فرمائے اگر ہدایت ان کے مقدر میں نہیں ہے تو ہمیں ان سے نجات عطا فرمائے ۔

نوٹ: عام طور پر ملک کو اس نہج پر پہنچانے والے کرداروں کو درست نشان زد نہیں کیا جاتا۔ باقی کرداروں کو چھوڑ کر صرف سیاست دانوں کو لعن ملامت کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ملک کو اس قابلِ رحم حالت تک پہنچانے والے صرف سیاست دان نہیں ہیں۔ اس کار ِ بد میں سیاست دانوں کے ساتھ تین چار گروہ اور بھی شریک ہیں سو ملک کو اس حالت تک پہنچانے والوں کی شان میں قصیدہ گالیہ سناتے ہوئے دیگر کرداروں کو نہیں بھولنا چاہیے)

Advertisement
Back to top button