کالم نگار

آرکاری کا سر سید احمد خان

نثار احمد خان

تلخ و شیریں

 

دو دن قبل فیس بُک پر ایک تصویر نظر آئی. تصویر میں میں وزیر زادہ جماعتی رفقاء کے جلو میں سیاہ ارکاری کو سفید ارکاری کے ساتھ ملانے والے ایک پل کا افتتاح کر رہے ہیں۔ تصویر نے سرشاری کی لہر میرے تن بدن میں دوڑا دی۔ وجہ ِمسرت یہ نہیں تھی کہ پل کا افتتاح ہو رہا تھا وہ تو یہاں ہوتا رہتا ہے خصوصاً گزشتہ چند سالوں سے "سنگ بنیاد” اور "بدست افتتاح” جیسے مرکبات سیاست دانوں کے ہاتھوں اپنی مٹی ایسی پلید کروا چکے کہ اب ان کی رہی سہی وقعت بھی ختم ہو چکی۔ یہاں خوشی کی وجہ "ارکاری” میں کسی پل کا واقعی افتتاح بھی تھا اور وزیر اعلیٰ کے مشیر کی ارکاری میں موجودگی بھی ۔ مطلب خوشی ارکاری جیسے پسماندہ علاقے میں کچھ ہونے کی تھی۔ 

ارکاری لوئر چترال کا انتہائی دور افتادہ اور پس ماندہ علاقہ ہے۔ چترال ٹاون سے پچاس پچپن کلومیٹر دور ارکاری دو ہزار اکیس میں بھی بعض ان سہولیات سے بھی محروم ہے جن سے بہت سارے علاقے سن دو ہزار ایک سے ہی پہلے مستفید ہوتے آ رہے ہیں۔ یہاں ترقیاتی کاموں کے ناپید ہونے کا کیا رونا، ترقیاتی کام تو خدا کے فضل سے اچھے خاصے علاقوں میں بھی نہیں ہو رہے لیکن تین چار ہزار نفوس پر مشتمل ارکاری میں وہ کام بھی نظر نہیں آ رہے جنہیں کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے بنیادی اور ضروری گردانا جاتا ہے۔ 

خدا جانے یہاں کی آبادی کا معاشی انحصار کس پر ہے۔ زراعت پر اس لیے نہیں ہو سکتا کہ آگست کے دوسرے عشرے میں بھی گندم کی کٹائی ارکاری کے بعض حصوں میں نہیں ہوئی ہے۔ ہم پانچ آگست تک یہاں تھے تب تک ارکاری کے زیادہ تر حصوں میں ابھی تھریشنگ کیا، کٹائی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح معاشی دارو مدار سرکاری ملازمت پر بھی ہونا اس لیے مشکل لگ رہا ہے کہ یہاں کے اکلوتے گورنمنٹ ہائی سکول میں مقامی سے زیادہ غیر مقامی اساتذہ تعینات ہیں۔ شاید آمدنی کا بڑا زریعہ وہ مزدور کار نوجوان ہیں جو یا تو کراچی، لاہور وغیرہ جا کر مزدوری کرتے ہیں یا پھر سعودیہ دبئی جا کر پاکستان کے ایک کونے میں موجود اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔

 بہرحال جو بھی ہے ارکاری میں بھی چترال کے دوسرے دیہات کی طرح زندگی جدوجہد سے بھرپور بھی ہے اور پُرمشقت بھی۔ پرانے دور و وضع کے بے ترتیب کچے مکانات دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یا تو باشندگانِ ارکاری جدید تمدنی زندگی کے قائل نہیں یا پھر علاقے میں پھیلی غربت انہیں اپنے آباؤ اجداد کے نشانات کا حلیہ بدلنے سے باز رکھ رہی ہے۔ علاقے کی اندرونی گلیوں کو چھوڑئیے خود مرکزی سڑک کی ہیئت و حالت ایسی نہیں کہ اس پر سڑک کی تعریف منطبق کی جا سکے۔ 

میرے مشاہدے کے مطابق یہاں کل دو نفیس، عالیشان، دیدہ زیب اور معیاری عمارتیں ہیں۔ ایک سیاہ ارکاری کا جماعت خانہ ہے اور دوسری گولڈن جوبلی سکول اینڈ کالج۔ اس کے علاوہ دو قابلِ ذکر سرکاری عمارتیں بھی ہیں ایک گورنمنٹ ہائی سکول ارکاری اور دوسری حال ہی میں تعمیر ہونے والا گندم گودام۔ ماشاءاللہ چشم بد دور یہاں سرکار کئی سالوں سے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے "کفایت شعاری” اور "پیسے بچاؤ پالیسی” پر مضبوطی سے عمل پیرا ہے۔ البتہ اپنی مدد آپ کے تحت اور "ادارے” (یہاں کے لوگ ادارہ بولیں تو اس سے اے کے ڈی این کا کوئی ذیلی ادارہ مراد ہوتا ہے) کی طرف سے بہت سارے ایسے کام ہوئے جنہیں سرکار کو کرنا چاہیے تھا۔ مثلاً پانی نہایت ہی بنیادی ضرورت ہے۔ سیاہ ارکاری سے تعلق رکھنے والے نوجوان نثار کے مطابق ان کے گھروں میں استعمال ہونے والا پانی "ادارے” کا تحفہ ہے۔ مثلاً سیاہ ارکاری کے بالمقابل سفید ارکاری کی طرف ایک خاصا کشادہ کھیل گاہ موجود ہے۔ عصر کے وقت یہاں کرکٹ دیکھتے ہوئے جب میں نے نثار کے سامنے کھیل گاہ کی تعریف کی تو فٹ سے بول پڑے۔ ‘یہ ہم لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت "ادارے” کے تعاون سے بنایا ہے۔ دراصل پچھلی دفعہ امام کی تشریف آوری یہاں ہونی تھی۔ اور اسی میدان میں جلوہ افروز ہو کر انہوں نے دیدار کروانا تھا سو لوگوں نے اپنی زمینیں دل بخوشی رضاکارانہ طور پر دے دیں۔ پھر امام کی تشریف آوری ہوئی اور نہ ہی لوگوں نے اپنی زمینیں واپس لیں۔ یوں کھیلنے کے لیے ایک کھیل گاہ معرضِ وجود میں آ گیا۔’

 لیکن مسئلہ یہ ہے ایک تو اس میں جابجا پتھرپیوست ہیں دوسرا یہ کہ نہ صرف اس کے نیچے پانی کی وافر مقدار ہے بلکہ وہ پھوٹ کر باہر ابل بھی رہا ہے اور چھوٹی ندی کی شکل میں بڑی ڈی کے اندر سے چکر لگاتا ہوا گول کے پاس سے ہوتا ہوا گراؤنڈ سے باہر جا رہا ہے۔

متعدد کمروں پر مشتمل گولڈن جوبلی سکول اینڈ کالج ڈاکٹر میر افضل تاجک کا اہل ارکاری کو ایسا تحفہ ہے کہ اس پر ارکاری والے ڈاکٹر تاجک کا جتنا شکر ادا کریں، کم ہے۔ کالج کا اندرونی نظام، درسگاہیں، لائبریری، دفتر، کچن اور کمپیوٹر روم دیکھ کر کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ یہ ارکاری میں واقع ہے۔ کالج معیاری طرزِ تعمیر کا نمونہ بھی ہے اور نہایت جازب نظر بھی۔ ماشاءاللہ کالج کا ماحول تعلیم و تعلّم کے لیے ساز گار ہے۔ مشفق اور باصلاحیت اساتذہ کی بڑی تعداد سکول و کالج سے منسلک ہے۔ اگر کسی چیز کی کمی ہے وہ طلبا کی ہے بس۔ بالخصوص سکول پورشن میں طلبا کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ 

کالج کے موجودہ پرنسپل کا نام عبد الکریم ہے۔ عمر میں جوان، مزاجاً کم گو عبد الکریم وفاقی اردو یونیورسٹی کراچی سے فارغ التحصیل ہیں۔ سکول کے علاوہ مقامی کونسل کے پلیٹ فارم سے سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ نمل یونیورسٹی کا فاضل افتاب اور حال ہی میں ڈگری کالج چترال سے بی ایس کی تکمیل کرنے والے شفیع بھی یہاں ٹیچر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے علم حاصل کرنے والے سر مقصود کے کیا کہنے جو ٹیچر کم، خادم ذیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح میموں کی بڑی تعداد روز یہاں پڑھانے اور بچوں بچیوں کا مستقبل سنوارنے آتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے اس بات سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ پہلے تاجک صاحب نے محنت سے خود پڑھا۔ ارکاری کا دور افتادہ یا پسماندہ ہونا ان کی تعلیم کے لیے رکاوٹ نہیں بن پایا۔ انہوں نے اپنے جذبے اور محنت کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وسیلہ بنایا۔ رسمی تعلیم کی تکمیل کے بعد اسکالر شپ میں پہلے آغا خان یونیورسٹی سے ایم ایڈ کیا پھر باہر سے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اب بیرون ملک ہی کسی یونیورسٹی میں بطورِ پروفیسر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

مزید دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر تاجک نے اسکالر شپ ارینج کرنے والوں کا احسان بھولا نہیں، ان کا احسان اس طرح چکایا کہ ایک ایسے علاقے میں عالیشان تعلیم گاہ بنا دی جس کے باسیوں کے لیے میٹرک کے بعد تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل ہوتا تھا جس طرح سر سید احمد خان دوستوں سے چندہ کر کر کے قوم کے بچوں کے لیے سکول و کالج بنایا تھا اسی طرح ڈاکٹر تاجک نے بھی اپنے مخیّر واقف کاروں کو مائل و قائل کر کے ارکاری میں مثالی کالج قائم کیا۔ سر سید احمد نے بھی تعلیم کے زریعے برصغیر کے مسلم معاشرے کو اٹھانے کی کوشش کی تھی ڈاکٹر تاجک بھی اپنی کمیونٹی کو تعلیم کے زریعے مستقبل سے نبردآزما ہونا سکھا رہے ہیں۔ پاکستان اور صوبہ خیبر کا نہ سہی، ڈاکٹر تاجک اپنے علاقے ارکاری کا سر سید احمد خان تو ہے ناں۔ قوم کو ایسے ہی سر سید احمد خانوں کی ضرورت ہے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button