خواتین کا صفحہکالم نگارلوئیر چترال

ہم کوئی شوکیس میں بند عجوبہ ہیں یا شو پیس؟

سیدہ سفینہ ملک

پورے تہوار سے بے نیاز ، کسی سوچ میں ڈوبی خاتون کو دیکھ کر مجھے لگا کہ وہ خاتون کسی تکلیف میں ہے۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا اور چلا جاتا تھا ۔ خیالوں کی دنیا میں کچھ سوچ کر کبھی وہ ہاتھ بھینچ لیتی تھی تو کبھی چہرے کے تاثرات اس قدر سخت ہوتے کہ گمان تھا کہ وہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھا لے۔ ڈرتے ڈرتے میں اس خاتون کے پاس گئی مخاطب ہونے پریک لخت خاتون نے میری طرف دیکھا اور فوراَ مسکراہٹ چہرے پر سجا لی۔ میں نے اس سے حال احوال لیا اور مزید بات کرنے کی اجازت مانگی تو میرے ساتھ پتھروں سے بنی ایک دیوار میں بیٹھ گئی۔ میں نے اس سے اس کی کیفیت سے متعلق پوچھا تو شروع میں تو بات کرنے سے گھبرانے لگی۔میں نے جب ہمت دلائی تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ساتھ فوری بولنے لگی ہم کیا شوکیس میں بند کوئی عجوبہ ہیں؟ یا کوئی شوپیس ہیں کہ کوئی بھی آکر بنا اجازت لئے تصویر کھینچے اور سوشل میڈیا میں کچھ بھی لکھ دے۔ میں نے اس سے معاملہ دریافت کیا تو اس نے بہت سی باتیں کیں جو میں آگے چل کر بتاوں گی۔ سب سے پہلے تو جان لیں کہ یہ لوگ کون ہیں ؟
کیلاش قبیلے کے لوگ پاکستان کے شمالی ضلع چترال اور افغانستان کے صوبوں نورستان اور کنڑ کی سرحد پر تین چھوٹی چھوٹی وادیوں میں آباد ہیں۔ اس قبیلے کا اپنا الگ مذہب اور رہن سہن کا روایتی انداز ہے۔
ماضیٴ قریب میں اس قبیلے کی آبادی بہت زیادہ تھی۔ البتہ اب ان تین مختلف وادیوں بمبوریت، بریر اور ریمبور میں ان کی مجموعی آبادی تین سے ساڑھے تین ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے۔
کیلاش لوگ خود کو سکندرِ اعظم کی اولاد قرار دیتے ہیں جو پانچ ہزار سال قبل ان وادیوں میں آباد ہوئے۔
کیلاش قبیلے کے افراد کہتے ہیں کہ جب سکندرِ اعظم افغانستان پر حملہ کرکے واپس آ رہے تھے تو ان کا گزر اس علاقے سے ہوا تھا۔ اسے پیٹ کی بیماری لاحق ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اس کے چند فوجی بھی اس کی حفاظت اور خدمت کے لیے موجود تھے۔ بعد میں ان کی موت واقع ہوئی، جب کہ کیلاش لوگ اسی کے نسل سے یہاں آباد ہوئے۔ انہوں نے اپنی مخصوص ثقافت کئی ہزار برس سے محفوظ رکھی ہوئی ہے جو پاکستان کے انڈیجنیس پیپلز میں شامل ہیں۔ انہوں نے ابھی تک اپنی ثقافت، لباس اور رسم و رواج تبدیل نہیں کیے۔
یہ لوگ اب تین وادیوں میں رہتے ہیں۔ تینوں وادیوں میں اب کیلاش مذہب سے وابستہ لوگوں کی تعداد کافی کم ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگوں نے مذہب تبدیل کر لیا ہے اور وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان لوگوں کو مختلف حوالوں سے کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
چترال کی تین وادیوں بمبوریت، بریر اور رمبور میں لگ بھگ چار ہزار کیلاش بستے ہیں۔ ان میں زیادہ آبادی بمبوریت وادی میں بستی ہے اور یہاں بھی دو گاؤں کرکاکل اور انیش میں۔
چترال سٹی سے ان وادیوں تک تقریباً تین گھنٹوں کی دشوار مسافت ہے۔ یہ سڑک کئی دہایوں سے اسی طرح ویراں اور پر خطر ہے ۔ بمبوریت وادی میں کیلاش کے علاوہ مسلم کمیونیٹی بھی بڑی تعداد میں بستی ہے لیکن آمد و رفت کے اس واحد ذریعے کے لحاظ سے دونوں کی قسمت ایک ہی طرح کی ہے۔
اس سڑک کو پختہ نہ کرنے کی وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ کہیں باہر سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے پاکستان کے اس انوکھے ثقافتی ورثے کا خاتمہ نہ ہو اور ان کے قدرتی وسائل خصوصاً جنگلات کی کٹائی روکی جاسکے۔
بظاہر تو قدرتی و ثقاتی وسائل کی بقا پہ کام کرنے والوں کے لئے یہ بڑی دلکش دلیل معلوم ہوتی ہے لیکن اصل صورت اس سے یقیناً مختلف ہے۔ ایک تو ان سیّاحوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ اب بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں خصوصاً کیلاش کے تہواروں کے موقعوں پر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ وہ مبلغ حضرات بھی ہوتے ہیں جو کیلاش کو ہر صورت میں اپنی طرح بنانا چاہتے ہیں۔
بڑی مصیبت کیلاش کے لئے اندرونی سیّاح ہیں۔ ان سیّاحوں کی اکثریت کیلاش وادیوں میں حسن و سرور کے لئے جاتی ہے۔ کیلاش لڑکیوں کو چھیڑا جاتا ہے، ان کی تصویریں اتاری جاتی ہیں
کیلاش لڑکیاں اب تصویر اتروانا نہیں چاہتیں کیونکہ دن میں سینکڑوں بار کیمرے کے سامنے کھڑا ہونا ان کے لئے تکلیف دہ عمل بن چکا ہے اس پر مستزاد یہ کہ بعض سیّاح ان کو چھیڑنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ کیلاشی بچیاں اکثر رقم مانگتی ہیں جب ان کو فوٹو کے لئے کہا جائے۔ ان کو اس طرف یہ سیّاح مائل کرتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر گھروں میں گھس کر عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور یوں وہ بے چاری ہراساں ہوجاتی ہیں۔
کیلاش خواتین اور مردوں کی رنگت اکثر گوری ہوتی ہے۔ یہ عورتیں اپنے اس روایتی رنگین لباس میں بڑی خوبصورت لگتی ہیں مگر یہ پری زادیاں افلاس اور ناخواندگی کی زندگی گزارتی ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ کیلاش خاتون کے نزدیک حکومت اور سوسائٹی نے ان کو کسی چڑیا گھر میں موجود پینجرے کا جانور بنا رکھا ہے یا پھر کیلاش شو کیس میں بند وہ عجوبے ہیں جن کو باہر والوں کو دکھایا جاتا۔
اس جی دار خاتون کے نزدیک حکوت اور دوسرے سرکاری و غیر سرکاری ادارے کیلاش کے نام اور روایات پر پیسے تو کماتے ہیں لیکن ان کی تعلیم اور غربت میں کمی کے لئے کچھ نہیں کرتے۔
کیلاش میں تھوڑا بہت ترقیاتی کام اگر ہوا بھی ہے تو وہ بھی یونانی حکومت کی مرہون منت ہے۔ واضح رہے کہ یونانی حکومت نے اپنے دیوالیے ہونے کے بعد بہت سے کام اب ترک کر دئے ہیں۔
جو ایک دو اسکول موجود ہیں ان میں بھی کلاشہ زبان اور مذہب کی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ہر کیلاش دیگر زبانیں سیکھنے پر مجبور ہے۔

چلم چوش تہوار 14 مئی سے شروع ہوگیا ہے اور یہ 17 مئی تک جاری رہے گا اور توقع کی جارہی تھی کہ گزشتہ سال کی طرح سال بھی ملکی اور غیرملکی سیاح زیادہ تعداد میں شرکت کریں گے تاہم ملک میں جاری سیاسی گشیدگی اور غیر یقنی صورتحال کی وجہ سے اس سال سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی آئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے تہوار پر اثر پڑا ہے۔
کیلاش میں زیادہ تر مقامی لوگ ہوٹلز کے کاروبار سے وابستہ ہیں اور ان کا زیادہ تر انحصار سیاحت پر ہے اس لیے وہ ہر سال مخلتف تہواروں کا انتظار کرتے ہیں جس سے ان کا کاروبار چلتا ہے لیکن اس سال سیاحوں کی کم آمد نے ہوٹلز کے کاروباریوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر چترال عدنان حیدر ملوکی کے مطابق 14 مئی کی شام تک مجموعی طور پر 6 سو سیاح کیلاش کے تینوں وادیوں پہنچ چکے ہیں جن میں 141 غیرملکی اور باقی ملکی سیاح شامل ہیں۔
ان کے مطابق تہوار میں مقامی لوگوں اور سیاحوں کی حفاظت کے لیے سیکورٹی کے سخت اقدامات کئے گئے ہیں جبکہ تہوار میں کمشنر ملاکنڈ ڈویژن ،ڈی جی ٹورازم سمیت ڈپٹی کمشنر اور دیگر اعلی آفسران بھی پہنچ چکے ہیں۔
اسسٹنٹ کمشنر نے سوشل میڈیا پر چلنے والی افواہوں کی ترید کرتے ہوئے کہا کہ کیلاش میں داخل ہوتے وقت سیاحوں سے کسی بھی قسم کی فیس نہیں لی جاتی اور سیاح مفت کیلاش کے تینوں وادیوں کا رخ کرسکتے ہیں۔
کیلاش کے تہواروں کے حوالے سے مختلف پلیٹ فارمز پر مختلف واقعات بتائیے جاتے ہیں ان میں کچھ مثبت ہوتے ہیں اور بے شمار منفی اور من گھڑت ہوتے ہیں ۔۔اصل حقائق کے بارے میں بتانا بے حد ضروری ہے۔ان معصوم لوگوں کے حوالے سے حقائق کون بتائے گا ؟
پاکستان کے ہر سرکاری و غیر سرکاری دفتر میں، شہروں کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اور عوامی جگہوں پر کیلاش خواتین کی تصویریں چسپاں ہیں لیکن بہت کم ہی ہونگے جو ان کی اذیت ناک، خوفزدہ اور بے کسی کی زندگی سے واقف ہوں۔ ایسے پاکستانی کم ہی ملیں گے جن کو کیلاش اور ان جیسے دوسرے قبیلے اپنی الگ شناخت، عقیدے اور مذہب سمیت قابل قبول ہو۔

Advertisement
Back to top button