سیاستکالم نگار

آصف زرداری، عمران خان اور اخلاقیات

تحریر: شہزاد ایوبی

کچھ عرصہ قبل ملک کے نامور قانون دان اعتزاز احسن سے کسی اینکر نے سوال کیا کہ "اعتزاز صاحب حکومت کہ رہی ہے کہ صرف آٹے کا بحران ہے چینی کا بحران نہیں ہے جبکہ اپوزیشن کے مطابق چینی، چاؤل اور آٹے کا ملک بھر میں بحران ہے۔ آپ کے مطابق کس کی بات درست ہے؟
اعتزاز احسن نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ "اس ملک میں نہ آٹے کا بحران ہے نہ چینی کا، صرف اخلاقیات کا بحران ہے اور یہی اس ملک کا سب سے بڑا بحران اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے”.

یقین مانیئے اعتزاز احسن نے پاکستانی معاشرے کا پورا نقشہ اس دن واضح کردیا۔ ہمارے ملک کے زوال کی اصل وجہ اخلاقی پستی ہی ہے۔

کچھ دن پہلے ڈسکہ الیکشن کی شام 20 پولنگ آفیسر اغوا ہوئے. پی ٹی آئی غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق جیت گئی۔ پی ٹی آئی کے کارکن جشن منانے لگے۔ کسی نے یہ سوچنے سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ تو شفاف انتخابات اور کرپشن سے پاک پاکستان کا نظریہ لے کر آئے تھے۔ کسی پی ٹی آئی ورکر کی اخلاقی جرأت نہیں ہوئی کہ اس اخلاق سے گرے ہوئے اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے واقعے کی مذمت کرتا۔ مان لیتے ہیں کہ ایک کروڑ نوکری، پچاس لاکھ گھر کا وعدہ اس لئے پورا نہ ہوسکا کیونکہ معیشت کے بیڑے کو گزشتہ حکومتیں غرق کر چکیں، لیکن کیا پنجاب میں پولیس ٹھیک ہوئی؟ تعلیمی بجٹ میں اضافہ ہوا؟ کرپشن کی روک تھام ہوئی؟یہ کیا؟ پولنگ آفیسر کیسے اغوا ہوسکتے ہیں؟ کیا یہ ہے وہ نیا پاکستان؟

اسی طرح گزشتہ روز سینٹ انتخابات ہوئے، پیسے کی ریل ہوئی، دیکھتی آنکھوں نے دیکھی، سنتی کانون نے سنی پھر بھی کسی کو برا نہیں لگا۔ یوسف رضاگیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی ویڈیو میں منتیں کر رہے ہیں کہ "زرداری صاحب نے کہا ہے کہ تھوڑا نیچے آئیں ہم دس دس کروڑ دینگے، ورنہ پورے پاکستان میں سب کو زیادہ دینا پڑے گا”۔ پھر انھوں نے تصدیق کی کہ یہ ویڈیوز ان ہی کی ہیں۔ اسلام آباد میں یوسف رضاگیلانی کی جیت ہوئی۔ پی ٹی آئی کے دس سے پندرہ ووٹ بک گئے۔ حکمران جماعت سینٹ انتخابات میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لینے کے باوجود قومی اسمبلی میں اہم سیٹ ہار گئی۔
پھر وہی ہوا۔ لوگ پیپلزپارٹی کی جیت کا جشن مناتے ہوئے نظر آئے ۔ ایک زرداری سب پے بھاری کے نعرے لگائے جانے لگے۔

اسلام میں رشوت دینے اور لینے والوں دونوں کو جہنمی کہا گیا ہے۔ ہمیں معلوم بھی ہے کہ کروڑوں روپے لگے پھر بھی ہمیں فخر ہے کہ ہماری جماعت جیت گئی۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ ایک ہی ہے، اخلاقیات کا بحران۔
ہم صرف وہ دیکھتے ہیں جو ہمیں نظر آتا ہے، وہ دیکھنا نہیں چاہتے جو حقیقت ہے۔ ہم یہ مان نہیں سکتے کہ ہم بھی تو غلط ہو سکتے ہیں۔ چونکہ ہماری جماعت ہے، ہمارا نظریہ ہے تو چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو ہم اسے غلط نہیں کہتے یا غلط نہیں کہ سکتے۔ ہمارا نعرہ انصاف یا جمہوریت ہے، لیکن نہ انصاف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں نہ جمہوریت کی حوصلہ افزائی۔

یہ معاملہ ہماری خود کی زندگیوں کا بھی ہے۔ ہم جھوٹ بولتے ہیں، اپنے رشتوں کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ انا پرست ہیں، ہمارےقول اور فعل میں تضاد ہے۔ اپنے خاندان کو ترجیح نہیں دیتے، منفی تاثر رکھتے ہیں، منفی ذہنیت کو پھیلاتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود کو برترباقیوں کو کم تر سمجھتے ہیں۔ ہم اخلاقی دائرہ کار سے باہر نکلے ہوئے ہیں۔

کسی دانشور نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ کو صرف آپ کی جماعت یا آپ کا نظریہ ہی درست باقی سب غلط نظر آتے ہیں تو آپ کو مزید تعلیم کی ضرورت ہے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button