اپر چترال

ڈی پی او اور ڈی سی اپر چترال کچھ نظر کرم ادھر بھی

ٹیکنالوجی کا استعمال جب سہولت کی بجائے عیاشی کےلئے کیا جائے تو وہ مصیبت بن جاتی ہے، کچھ یہی صورتحال چترال میں موٹر سائیکل کی سواری کا ہے۔ آج سے دس یا پندرہ سال پہلے خال خال ہی کسی کو یہ سہولت میسر تھی اب صورتحال یہ ہے کہ جس گھر میں بارہ سال کا بچہ موجود ہے تو اس گھر میں موٹر سائیکل بھی کھڑی ہے۔ ہر سہولت کی طرح اس سہولت کا بھی ہم نے غیر ضروری اور غیر قانونی استعمال کرکے سہولت کے بجائے مصیبت بنا کے رکھ دیے ہیں۔


ضلع اپر چترال کے تھانہ مستوج کے حدود میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے لڑکے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے جا بجا نظر آتے ہیں کچا روڈ پہ یہ لڑکے 125 موٹر سائیکل ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایسے چلا رہے ہوتے ہیں جیسے یہ کوئی کوالیفائیڈ بائیک رائیڈر ہیں اور یارخون روڈ نہیں بلکہ نیشنل ہائی وے پہ موٹر سائیکل چلا رہے ہیں۔ ان لڑکوں کو پولیس کا کوئی خوف ہے نہ ماں باپ کی کوئی فکر۔ اپنی جان کے تو یہ دشمن ہیں ہی لیکن ساتھ ہی علاقہ مکینوں کےلئے بھی شدید خطرہ بن چکے ہیں، جس روڈ پہ یہ موٹر سائیکل دوڑاتے نظر آتے ہیں اس روڈ پہ بچے،خواتین اور بزرگ بھی ہوتے ہیں، اور سڑک سے ملحق لوگوں کے گھر بنے ہیں جہاں سے روڈ پہ دن میں کئی بار آنا جانا ہوتا ہے۔ اللہ نہ کریں کسی دن ان موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے کوئی بہت بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مقامی پولیس بھی اپنی زمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہے روڈ کے اوپر تھانہ ہونے کے باووجود ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔
ڈی پی او اور ڈی سی اپر چترال صاحبان سے چمرکھن کی وساطت سے اہلیان علاقہ کی درخواست ہے کہ ان کم عمر موٹر سائیکل سواروں کے خلاف مستقل طور پر گرینڈ آپریشن شروع کیا جائیں اور اپر چترال کے تھانوں میں ٹریفک پولیس کی تعیناتی مستقل بنیادوں پر عمل میں لائی جائیں، بصورت دیگر کسی حادثے کی صورت میں ذمہ متعلقہ تھانے اور انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button