خواتین کا صفحہکالم نگار

خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا

کچھ سال پہلے دفتری مصروفیات سے چھٹی لے کر اسلام اباد گھومنے گیا۔ موٹر وے سے گزرتے ہوئے ٹانگ میں خراش محسوس ہونے لگی۔ دیکھا، چھوٹا سا دانہ تھا

مراد اکبر

کچھ سال پہلے دفتری مصروفیات سے چھٹی لے کر اسلام اباد گھومنے گیا۔ موٹر وے سے گزرتے ہوئے ٹانگ میں خراش محسوس ہونے لگی۔ دیکھا، چھوٹا سا دانہ تھا۔جس پرکوئی خاص توجہ نہیں دی۔ گھومنے گھامنے اور موج اڑانے میں دو چار دن ایسے ہی گزر گئے۔ معمولی دانہ جس کو میں قابل توجہ ہی نہیں سمجھا تھا ان چار دنوں میں اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ دانے کی جگہ پھوڑے نے لے لی تھی اورخراش درد میں بدل چکا تھا۔ اب بھی میرا ارادہ اس "معمولی” قسم کے دانہ کو سنجیدہ لینے کا نہیں تھا۔ کچھ گھریلو ٹوٹکے اور کچھ "ازمودہ” ادویات استعمال کرکےدیکھ لیا۔ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق پھوڑا ناسور بنتا جارہا تھا۔ ایک ہفتہ کے اندر حال یہ تھا کہ چارپائی سے اٹھنے اور غسل خانہ تک جانے کیلئے ایک ہٹا کٹھا انسان دوسروں کا محتاج ہوگیا تھا۔ جب تک ٹانگ سیدھی رکھو تو ٹھیک اگر ہلانے کی کوشش بھی کی تو درد کی ایسی ٹیسیں اٹھتیں کہ یہ بندہ خدا بلبلا اٹھتا۔ کوئی آٹھ دن بعد اس موٹے عقل والے کو عقل ائی کہ ڈاکٹر نام کا ایک مخلوق ہوتا ہے جس کے پاس لوگ درد کی دوا کرنے جاتے ہیں۔ سو گاڑی میں ڈال کر مجھے ماہر جلدی امراض کے پاس لے جایا گیا۔ مختصر یہ کہ معائنہ کے بعد انہوں نے ایک مرہم لکھ کے دیا جس کے استعمال سے درد کی شدت اور پھوڑے کا حجم کم ہوتے ہوتے ایک ہفتے میں کہیں غائب ہوگئے۔ لیکن پھوڑے کا نشان اور اس درد کی یاد آج بھی موجود ہے۔
معاشرے میں موجود برائیاں بھی پھوڑے جیسی ہی ہوتی ہیں۔ ان پر توجہ نہ دی جائے تو ناسور بن کرغیرمحسوس طریقے سے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کرتی ہیں۔ لیکن اگرشروع سے ہی ان کا ادراک، تشخیص اور علاج کیا جائے تو بہت بڑے بگاڑ اور حادثوں سے بچا جاسکتا ہے۔
غیر مقامی افراد سے چترالی لڑکیوں کی شادی کے مسئلے میں بھی نیا کچھ نہیں ہے۔ یہ دانہ جو شاید آج سے بچیس تیس سال پہلے چترالی معاشرے کے چہرے پہ نمودار ہوا تھا کب کا ناسور بن چکا ہے اور اپنا بدنما داغ ہم سب کے چہرے پر چھوڑ چکا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چترالی بھائی یہ داغ چھپانے کی کوشش میں اپنا سر شتر مرغ کی طرح ریت میں دبانے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہر بار جب ہم ایسا کرتے ہیں تو تیز ہوا کا جھونکا اتا ہے اور ریت اڑاکر لے جاتا ہے۔ ہمارے چہرے کے بدنما داغ پھر دکھنے لگتے ہیں۔پچھلے تین دنوں سے یہی کچھ مشاہدے میں آرہا ہے۔ بہت سارے "شریف چترالی” یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ "خدا را اس مسئلے پر کھوار میں جو لکھنا ہے وہ لکھئے لیکن اردو یا انگریزی میں لکھ کر ہماری (خودساختہ) عزت کا جنازہ مت نکالئے۔ حضور آپ ہاتھی کے کان میں سوئے ہیں۔ ذرا جاگئے۔ اپ کو گوش گزار کرتا چلوں کہ چترال کی عزت کا جنازہ کس دھوم سے اور کتنی بار نکل چکا ہے۔ لاہور میں، سرگودھا میں، فیصل اباد میں، حیدراباد کی ہیرا منڈی میں، ایبٹ اباد میں اور پتہ نہیں کہاں کہاں اور کس شان سے نکل چکا ہے ۔ چنیوٹ میں قتل ہوئی ماں بیٹی کا واقعہ پہلا نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی ایک واقعات ہوئے ہیں اور ائندہ بھی ایسا ہونے کے امکانات بڑے "روشن” ہیں۔لیکن میں جانتا ہوں آپ کو "اپنی” عزت عزیز ہے۔ ۔ وہ جو قتل ہوئی وہ دور گاؤں میں کسی کی بیٹی ہوگی۔ نہ وہ میرے برادری کی تھی، نہ وہ میرے مسلک کی تھی اور نہ وہ میرے علاقے کی تھی۔پھر کیوں میں "ٹنشن” لوں۔ لیکن صاحب مجھے اور اپ کو ٹینشن دینے کیلئے کیا اتنا ہی کافی نہیں کہ جب میں کسی شہری بابو سے، ٹیکسی ڈرائیور سے، دکاندار سے، پروفیسر یا کسی اور سے اپنا تعارف چترالی کے طور پر کرواتا ہوں تو وہ میرا علاقہ،مسلک یا برادری نہیں پوچھتا بلکہ چھوٹتے ساتھ اچھے داموں ” خوبصورت لڑکی” کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کی نظر میں ہر چترالی "دلال” اور ہر چترالی لڑکی "بکاؤ مال” ہے۔ ایسی صورتحال میں کم از کم مجھ میں لڑائی کی ہمت ہوتی ہے اور نہ ہی بحث کی جرات۔ بس چچا غالب کے بقول "حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں” کہتا ہوا آگے نکل جاتا ہوں۔
ہم دلالوں کو دوش دیتے ہیں۔ ہم شکایت کرتے ہیں کہ ہماری بیٹی کے ساتھ یہ ظلم ہوا۔ حضرت ہمارا حق نہیں بنتا ایسا کچھ کہنے کا، شکایت کرنے کا۔ ہم نے دکان سجارکھی ہے۔ ہمارے پاس "مال” ہے۔ بیٹی جو کسی وقت ماں باپ کیلیے "گڑیا” تھی۔ جس کی توتلی زبان میں بولنے کی کوشش پر ماں باپ ایسے خوش ہوتے جیسا کہ ان کو خزانہ مل گیا ہو۔ آج وہی گڑیا نہ صرف "برائے فروخت” ہے بلکہ ساتھ ہم نے "خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوگا” کا ٹیگ بھی لگا رکھا ہے۔ ملا ایک بار بک گیاتو بک گیا۔ فروخت شدہ مال کی خبر بھی کوئی لیتا ہے کیا۔ خبر تو آج بھی نہیں لیتے لیکن کیا کریں خبر میڈیا میں آجائے تو اپنی غیرت بھی جاگ جاتی ہے اور دو چار دن اچھل کود کرلیتے ہیں۔ جس سے بدن اور دماغ چست رہتا ہے۔ دعوت عظیمت سے لیکر پولیس تک، جماعت اسلامی سے لے کر تحریک انصاف تک اور مولوی سے لے کر صحافی تک سب کا خون کھولنے لگتا ہے۔ چونکہ سردی زیادہ ہے اس لئے ٹھنڈا بھی جلدی ہوجاتا ہے۔اور پھر سب کچھ اپنے پرانے ڈگر پر اجاتا ہے۔
حضور بات ہورہی تھی کاروبار کی۔ تو ہم کاروبار کے ہرگر پر دسترس رکھتے ہیں ۔ اچھے گاہک ڈھونڈنے واسطے دلال تک پال رکھے ہیں۔ صاحب دھندا برا نہیں ہے منافع کا ہے ۔ عزت کا کیا ہے آنی جانی چیز ہے،جب چاہے بیچو، جب چاہے خریدو۔ لو جی خریدے گا کوئی عزت۔ ہم نے بیچنی ہے۔ بس پچاس ہزار سے دس لاکھ تک۔ مال کے حساب سے۔ ویسے اپ کو بتادوں ہمارے ہاں نہایت اہمتمام سے "فروخت شدہ مال” کا جنازہ پڑھانے کا اہتمام ہے۔عام طور پر ہم بیچا ہوا مال واپس نہیں لیتے لیکن چونکہ گاہک پرانا اور عزت والا ہے اس لئےواپس لینے میں ہرج کوئی نہیں۔ اس سے گاہک سے تعلق برقرار رہتا ہے۔ آپ آئیں گے نا جنازے میں؟ ثواب ملے گا۔
Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button