خواتین کا صفحہ

ہمارےمجرم ہمارے اپنے

صوبہ پنجاب کے شہر چنیوٹ میں چترال کی بیٹی کا اسکی سات ماہ کی بچی سمیت قتل کا واقع انتہائی افسوس ناک ہے صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس لڑکی کا تعلق چترال سے تھی بلکہ اس لئے کہ یہ ایک انسانیت سوز واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنا ہی کم ہے

سمیر اللہ شاد

سمیر اللہ شاد کا تعلق اپر چترال کے گاؤں سور لاسپور سے ہیں ۔ پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت و ابلاغ میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ چترال کے سماجی اور سیاسی مسائل کے حوالے سے سوشل میڈیا میں اکثر کالم لکھتے رہتے ہیں۔

 

صوبہ پنجاب کے شہر چنیوٹ میں چترال کی بیٹی کا اسکی سات ماہ کی بچی سمیت قتل کا واقع انتہائی افسوس ناک ہے صرف اس وجہ سے نہیں کہ اس لڑکی کا تعلق چترال سے تھی بلکہ اس لئے کہ یہ ایک انسانیت سوز واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنا ہی کم ہے ۔
چنیوٹ کا واقعہ کوئی نیا نہیں ، ماضی میں اس طرح کے ہزاروں واقعات چترال کے معصوم لڑکیوں کے ساتھ رونما ہوتے آئے ہیں ہمارے معصوم چترالی خواتین کو شادی کے بعد کہیں شدید تشدد کا نشانہ بناتے تو کہیں انکے گلے میں پھندا ڈال کر قتل کرنے کے واقعات کئی برسوں سے ہم سنتے اور دیکھتے آرہے ہیں ۔ ایسے معاملات میں یکجا ہوکر ایک زندہ قوم کی حیثیت سے آواز تو اٹھاتے ہیں مگر یہ آواز چند دنوں کے لیے بلند ہوتی ہے پھر سب خاموش ہوجاتے ہیں۔ مجرم کو سزا ملتا بھی ہے کہ نہیں اس کا بھی پتہ نہیں چلتا اور پھر اسی طرح کا کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے پھر کچھ دن کے لئے ہماری خاموشی ٹوٹ جاتی ہے اور ایک بار پھر سوشل میڈیا کے اوپر یا کسی شہر میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اگلے دن اخبار میں چھپے احتجاج کی کچھ نیوز کوریج اٹھا کر فیس بک میں ڈال دیتے ہیں ،اس کے بعد سب خاموش ہو کر اگلے کسی ایسے ناخوشگوار واقعے کو راستہ دیتے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں۔
ہم چترالی قوم بڑے خاموش ، مہذب ، بااخلاق اور امن پسند ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ہماری ایک الگ پہچان ہیں اور ہم بڑے پسماندہ علاقے کے لوگ ہیں اور ہمارا علاقہ غربت کے لحاظ سے بھی فرنٹ لائن پر ہے۔ ہم اس ملک میں اپنے حق کے لیے آواز تو اٹھائیں گے لیکن ہمیں انصاف نہیں ملے گا کیونکہ ہم بزورِ شمشیر چھین نہیں لے سکتے اور نہ ہی پیسے کے عوض اپنے حق حاصل کرسکتے ہیں یہاں ہماری شکست یقینی ہوگی کیونکہ اس ملک میں انصاف براے فروخت ہے جو غریبوں کی پہنچ سے دور ہوتی ہے ۔اس پیارے وطن میں امیر جو چاہے کرسکتا ہے اور جب چاہے آسانی سے کسی غریب لاچار کا حق و حصہ اپنے نام کرسکتا ہے۔
چنیوٹ کے اس واقعے کے بارے میں کل خبر پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ وہ بندہ ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا یعنی پاگل شخص تھا جس نے اس سے پہلے بھی اپنی ایک بیوی کو کرنٹ لگا کر قتل کردیا تھا اور دوسری بیوی کو زندہ جلانے کی کوشش کی تھی اس پر شدید قسم کا تشدد کر رہا تھا جس کی وجہ سے اس عورت نے طلاق لی تھی اور پھر یہ اسکی تیسری بیوی تھی جو چترال سے تعلق رکھتی تھی جس کو اسکی سات ماہ کی بچی کےساتھ اس سفاک شوہر نے زبح کرڈالا۔
یہاں پر یہ سوال نہیں کہ چترال کی بیٹی کی شادی پنجاب کے چنیوٹ میں کسی پنجابی لڑکے سے کیوں ہوئی تھی ؟ اور نہ ہی یہ کوئی غلط کام ہے کہ ہماری اس بہن کی شادی وہاں کیوں کروائی گئی تھی؟۔اصل سوال یہ ہے کہ اس ذہنی مریض اور قاتل شخص سے چترال کی معصوم بیٹی کی شادی کس نے طے کروائی تھی ؟ وہ کون تھا؟ جس نے پنجاب کے پاگل کو چترال میں چودھری بناکر اسکا رشتہ کروایا تھا ؟ وہ کون سہولت کار تھا؟ جس نے اس پاگل پنجابی کی شادی میں اہم کردار ادا کیا تھا ؟ وہ کون شخص تھا جس نے بنا تحقیق کے اور بنا جان پہچان کے یہ شادی کے رشتے کروائے تھے؟
یقیناً یہ وہی لوگ ہوں گے جنکو ہم دلال کہتے ہیں یہ ہمارے اپنے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ ہمارے معاشرے کے معزز افراد ہوتے ہیں جو بنا کسی سوچ کے کسی معصوم کی زندگی کا فیصلہ کردیتے ہیں ۔ یقیناً یہ وہی لوگ ہے جو اپنی خوشی کی خاطر دوسروں کی ارمانوں کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہے جو پیسے کو اپنا سب کچھ مانتے ہیں اور کچھ رقم کے عوض معصوم جانوں کا سودا کرتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اپنوں کے اس مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے چترال بدنام ہوتا جارہا ہے اور اپنے دلالوں کی وجہ سے ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ چترال میں لڑکیوں کو فروخت کی جاتی ہے۔
آج ہم اس کم بخت سفاک پنجابی کو مجرم ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہ بھولے کہ اس واقعے کے اصل زمہ دار وہی لوگ ہے جو یہ رشتہ کرنے میں سہولت کار رہیں۔ چترال کے جتنے بھی این جی آوز یا وہ ادارے جو عورتوں کی حقوق کی تحفظ کے زمہ دار ہیں اور خاص کر تحریک تحفظ چترال، ان کو چاہیئے کہ اس واقعے کی مکمل طور پر جانچ پڑتال کرے اور واقعے میں ملوث جو بھی ہے انکو چترالی قوم کے سامنے لے آئے تاکہ ایک دلال کو اگر صحیح طریقے سے ضلعی اور قومی سطح پر سزا اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تو آئندہ ایسے واقعات کرتے ہوئے لوگ ضرور سوچیں گے وگرنہ اسی طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے۔
دوسری طرف چترال میں جتنے بھی پرینٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہیں انکو چاہئے کہ ایسے واقعات کو بھرپور اور موثر انداز میں کوریج دے ۔ اسکے علاوہ سوشل میڈیا کے اوپر جتنے بھی گروپس یا ایکٹیو پیجزز ہیں اور ہر سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، کالم نگار، صحافی ، وکلاء ، فنکار ، شعراء جو بھی ہے ان کو چاہیے کہ اپنے قلموں اور پروگراموں کی توسط سے چنیوٹ کے اس واقعے کو ہر فورم پر اٹھائیں ۔ خاص کر ایف ایم 97 اور ایف ایم 93 چترال کو ایسے واقعے پر ایک جامع ریسرچ کے بعد آگاہی پروگرام چلانا چاہئے کہ باہر کے ذہنی پاگل دیوانے کس طرح امن کی بستی میں آکر اپنے سہولت کاروں کے ذریعے خود کو چودھری و خان بنا کے کسی بے چارے خاندان کی معصوم لڑکیوں کے ساتھ شادی رچاتے ہے اور بعد میں انکو کس طرح تشدد کا نشانہ بناکر قتل کر دیتے ہیں۔ تاکہ ہر گھر میں اور ہر فرد تک یہ پیغام پہنچ سکے اور ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button