تعلیمٹیکنالوجیخبریںخواتین کا صفحہ

“کیا پروڈکٹیوٹی ‘نہیں’ ہے”

ندا اسحاق

اکثر لوگ آپ کو پروڈکٹو ہونے کے نسخے بتاتے ہیں جس میں چند پوائنٹ کو بنا نیوروسائنس اور نفسیات کی ریسرچ کے بیان کرکے آپ کو کامیابی کی کنجی کہہ کر بتایا جاتا ہے۔ پروڈکٹوٹی کو جانے والے رستے سیدھے نہیں ہوتے، یہ پیچیدہ اور ٹیڑھے راستے ہوتے ہیں، آپ کی جاب کی نوعیت، جذبات، عادتیں مختلف تبھی آپ کو اس سے متعلق پروڈکٹو ہونے کے طریقے تلاش کرنے ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے نقصانات جو میں آپ کے ساتھ شیئر کروں گی وہ آپ کو ان گھسے پٹے نسخوں کا وہ رخ بتا سکتے ہیں جو آپ کے اور پروڈکٹو ہونے کے درمیان رکاوٹ ہے۔ پروڈکٹوٹی کیا نہیں ہے جاننا آپ کو پروڈکٹوٹی کیا ہے کی بہتر سمجھ دے سکتا ہے کسی حد تک۔

*زیادہ کتابیں پڑھیں:

ایک نوجوان نے بہت ہی مایوسی کے ساتھ ایک ای-میل میں لکھا تھا کہ “میڈم! میں نے اتنی کتابیں پڑھیں لیکن سب ضائع گیا، کچھ کام نہیں آیا”۔ یوٹیوب پر ایک کومنٹ میں جناب نے کہا کہ “بہت وڈیوز دیکھیں، بہت پڑھا لیکن حاصل کچھ نہیں ہوا آج تک”۔

کتابیں پڑھنا غلط نہیں، اس سے یقیناً فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ کتابیں پڑھ کر آپ کامیاب ہوسکتے ہیں۔ کتابوں میں موجود علم آپ کو شاید زندگی کے کسی موڑ پر فائدہ دے جائے لیکن ‘کامیابی کی ضمانت’ ہر گز نہیں۔

یہاں غلطی آپ کی نہیں ہے، آپ کا دماغ جب کتاب پڑھتا ہے یا وڈیو دیکھتا ہے تو سیکھنے والے سرکٹ (learning circuit) محرک ہوتے ہیں اور آپ کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے وہ اسکل سیکھ لی یا وہ عادتیں اپنا لیں جنہیں آپ نے وڈیو میں دیکھا اور کتاب میں پڑھا۔ لیکن حقیقت میں عملی طور پر آپ نے کچھ نہیں سیکھا ہوتا۔

مطالعہ ضرور کریں لیکن کوشش کریں کہ جو بھی پڑھیں اسے اپلائی ضرور کریں۔ اس پر عمل کریں، تیراکی پر کتاب پڑھ کر تیراکی نہیں سیکھی جاسکتی، اس کے لیے پانی میں اترنا ہوتا ہے اور پریکٹس کرنی ہوتی ہے۔ میڈیکل کے طالبعلم شروع کے سال کتابیں اور باقی کے سال ہسپتالوں کے چکر اسی لیے کاٹتے ہیں کیونکہ اصل پڑھائی عملی پڑھائی ہے۔ میں خود بھی مطالعہ کو بہت پسند کرتی ہوں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ میں صرف وہ پڑھتی ہوں جس سوال کا جواب مجھے چاہیے ہو، یا کسی الجھن کو دور کرنا ہو، یا مجھے کسی ماہر کی رائے جاننی ہو، زیادہ تر نفسیات، نیوروسائنس اور فلسفہ سے متعلق، تب میں آرٹیکلز، وڈیوز اور کتابوں کا سہارا لیتی ہوں، لیکن کتابیں پڑھنا کامیابی کی ضمانت نہیں ہیں۔

*بیک وقت کئی سارے کام کرنا (Multitasking):

ہم سب کو کبھی نہ کبھی نہ چاہتے ہوئے بھی بیک وقت کئی کام کرنے ہوتے ہیں، لیکن کوشش کریں کے اپنے کام کے معاملے میں صرف کام پر فوکس۔ خواتین کے کسی بھی فوکس والے کام میں یا اپنی فیلڈ میں اچھی کارکردگی نہ دکھانے کی کئی وجوہات میں ایک وجہ بیک وقت کئی ساری ذمہ داریاں سنبھالنا ہے، خواتین کے ذہن میں بیک وقت کئی کام چل رہے ہوتے ہیں جنہیں انجام دینا ان کے سر پر ہوتا ہے۔

لیکن آپ نے ملٹی ٹاسکنگ کے عذاب سے بچنا ہے۔ آپ نے ایک ٹائم میں ایک کام کرنا ہے۔ اسے “ٹائم بلاکنگ تکنیک” (time blocking technique) کہتے ہیں۔ جب اپنا کام کرنے بیٹھیں تو اگر ملک میں مارشل لاء بھی لگ رہا ہو اور پاکستان تباہی کے دہانے پر کھڑا گرنے والا ہو تب بھی آپ نے ٹس سے مس نہیں ہونا، چرچل کا ایک مشہور قول ہے سمجھدار بندہ وہی ہے جو انتشار اور افراتفری میں بھی اپنے روزمرہ کے کام انجام دے۔ ایسے میں پروڈکٹو ہونا لازم ہوجاتا ہے۔

سائیڈ ہسل (side hustle):

زیادہ انکم کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال یا چناؤ غلط نہیں، یا اچھی انکم کے لیے مختلف اسکلز کا سیکھنا بھی غلط نہیں لیکن غلطی عموماً وہاں ہوتی ہے جہاں آپ اپنی موجودہ فیلڈ سے بلکل ہٹ کر کسی چیز کو سیکھنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں کیونکہ آپ نے کسی اور کو اس اسکل سے اچھے پیسے بناتے دیکھا ہوتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ کسی بھی ایسی اسکل کو سیکھنا جس سے آپ کی موجودہ فیلڈ کا دور دور تک تعلق نہیں آپ کا خاصا وقت ضائع کرسکتا ہے اور آپ کی پروڈکٹوٹی کو کم کرسکتا ہے۔ اگر مجبوری ہو تو الگ بات ہے لیکن اگر اپنی ہی فیلڈ میں اپنی اسکلز کو مزید جدید اور پالش کرسکتے ہیں تو آپ کو فائدہ ہوگا کیونکہ اسکی بنیاد تو پہلے سے ہی بن چکی ہے تو آپ کو ایک الگ چیز کو سمجھنے کے لیے دوگنا وقت نہیں اور توانائی نہیں لگانا ہوگا اور اپنی ہی فیلڈ میں آپ زیادہ پروڈکٹو ہوسکتے ہیں۔

ڈاکٹر کال نیوپرٹ کی کتاب “اتنے بہتر بنیں کہ کوئی آپ کو نظر انداز نہ کر سکے” (so good they can’t ignore you) میں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ اپنی ہی فیلڈ میں ماہر بنیں اور خود کی اسکلز کو بڑھاتے رہیں اور وقتی جنون (passion) کے جھانسے میں نہ آئیں۔

اگر آپ کا سائیڈ ہسل (side hustle) آپ کی موجودہ اسکل سیٹ سے بلکل منفرد نہ ہو تو اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر آپ انجینئر ہیں اور آپ کے پاس تجربہ بھی ہے کام کا اور آپ اپنی جاب کے ساتھ ریئل اسٹیٹ کا بزنس کررہے ہیں، آپ کچھ گھنٹے دے رہے ہیں ریئل اسٹیٹ کو تو اس سے آپ کو فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ کسی بھی نئے بزنس کو سمجھنے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور اسے ٹائم دینا ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر آپ کا اپنا بزنس جس کا آپ کے پاس تجربہ ہے اس میں انویسٹ کرنے کی بجائے کسی اور بزنس میں انویسٹ کرنا جس کی آپ کے پاس کوئی نالج نہیں، گھاٹے کا سودا ہوسکتا ہے۔ وہ اسکل سیکھیں جو آپ کے موجودہ اسکل سیٹ یا بزنس کو چار چاند لگادیں۔

ایک اور مثال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر کسی انسان کا فزیکل اسٹور ہے تو ڈیجیٹل اسکلز سیکھ کر وہ اسی اسٹور کو فزیکل کے ساتھ آن لائن بھی کرسکتا ہے، آپ بزنس نہیں بدل رہے بلکہ پلیٹ کا اضافہ کررہے ہیں۔ایسے میں آن لائن اسکلز سیکھنا آپ کے موجودہ بزنس کو فائدہ دے رہا ہے۔ بہت شاذونادر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی انسان اپنی فیلڈ سے بلکل ہٹ کر کچھ کرے اور اس میں کامیابی مل جائے۔ لیکن اگر اسکی منہ بولی اسٹوری کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں کہانی کے نقطوں کو جوڑنے کی کوشش کریں گے تو کہیں نہ کہیں اس انسان کے پاس مواقع آئے ہونگے جو شاید آپ کو نہ ملیں، اور اس سے بھی بڑھ کر اس انسان کو وقت لگا ہوگا اس نئی فیلڈ میں اپنا لوہا منوانے کے لیے۔

ہر وقت نئی اور مختلف چیزیں سیکھنا آپ کو پروڈکٹو نہیں بناتا بلکہ کبھی کبھار پرانی چیزوں کو ایڈوانس کرنا، اپڈیٹ کرنا زیادہ بہتر انکم اور نتائج لاتا ہے۔

ہسل کلچر (hustle culture):

یہاں وہی “الٹ کوششوں کا قانون” لاگو ہوگا۔ دن رات محنت کرو، نیندیں حرام کرلو، زیادہ دیر کام کرو زیادہ اچھا نتیجہ برآمد ہوگا۔ زیادہ اسکل سیکھو، زیادہ کمائی کے ذرائع بناؤ…..اپنے دماغ پر کئی مختلف نئے ہنر سیکھنے کا بوجھ ڈالنا جس کی اس میں سکت نہیں یا نیندیں حرام کرکے کام کرنا دیرپا نہیں ہوتا، آپ کی صحت متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیمار ہونے پر یا “ذہنی تھکاوٹ” (burn out) ہونے پر آپ تھوڑا بہت کام کرنے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ لیکن کیسے؟؟؟ آپ کو اسٹریس (stress) کی سائنس سمجھاتی ہوں!!!

جب کوئی کام اتنا آسان ہو کہ اس میں چیلنج نہ ہو تو آپ کا دل نہیں کرے گا، آپ بور ہونگے۔ لیکن اگر کوئی کام نہ زیادہ مشکل اور نہ ہی زیادہ آسان ہو آپ کے لیے تو آپ کو انجام دینے کے دوران اسٹریس کے اس پوائنٹ پر ہوتے ہیں جو کام پورا کرنے کے لیے اہم ہے اسے “ای-یو اسٹریس”(eustress) کہتے ہیں۔ یہ والا پوائنٹ درمیانہ زون کہلاتا ہے، اس میں ہم نشونما کرتے ہیں، ہمارا فوکس بھی ہوتا ہے کیونکہ چیلنج تو ہوتا ہے لیکن وہ سر بھی ہورہا ہوتا ہے وقت کے ساتھ۔

پھر اسٹریس کی دوسری حالت جس میں آپ پر کام کا لوڈ زیادہ ہوتا ہے اور اکثر کام آپ کے موجودہ ہنر سے گئی گنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، یا پھر آپ جذبات میں آکر دوسروں کی دیکھا دیکھی کرنے کا سوچ کر خود کو ضرورت سے زیادہ کام (overworked) کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور اس حالت کو ڈسٹریس (distress) کہتے ہیں اور اس میں آپ کی کارکردگی اور پروڈکٹوٹی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی طالبعلم یہ سوچے کہ میں زیادہ پڑھوں گا تو پروڈکٹو ہوجاؤں گا، لیکن قانون ہے کہ آپ اتنا ہی پروڈکٹو ہوسکتے ہیں جتنی معلومات یا کانسپٹ کو آپ کا دماغ جذب/پراسس (absorb) کر پائے گا۔ اس لیے اتنا کیا جائے کہ تھوڑا چیلنج ہو لیکن اتنا بھی نہیں کہ آپ پر منفی اثرات ہونے لگیں۔
جب کام آپ کی سکت سے کم یا زیادہ ہوگا تو دونوں صورتِ حال میں آپ منجمد ہوجائیں گے اور آپ پروڈکٹو نہیں ہونگے۔
اپنے ذہن، اپنی شخصیت اور اپنی سکت کو سمجھیں۔

*صرف اپنے متعلق سوچنا:

“کوئی کسی کا نہیں”، “بس اپنے بارے میں سوچو”، “میں، میں اور میں”….. ایسے مشورے ملتے ہیں ہمیں، جو زیادہ وقت اپنے بارے میں سوچتا ہے کامیاب رہتا ہے۔ زندگی میں کچھ حالات میں خود کو کچھ دیر کے لیے سائیڈ پر کرکے دوسروں کی نشونما یا مدد کے متعلق سوچنا آپ کو فائدہ دے جاتا ہے۔ سوچیں آپ ایسے انسان ہیں جو ہمیشہ اپنے بارے میں سوچتا ہے، تو آپ کے خیال میں لوگ آپ کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں گے؟ ظاہر ہے وہ بھی آپ کے بارے میں نہیں سوچیں گے پھر جب آپ اکیلے رہ جائیں تو یہ ایمان اور بھی پکا ہوجاتا ہے کہ “دیکھا کوئی کسی کا نہیں ہوتا”۔ جب آپ دوسروں کو نوٹس کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ بھی آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

جب آپ لوگوں کی پرواہ کرتے ہیں، لوگ مدد کے لیے آپ کی جانب دیکھتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سب لوگ فرشتہ صفت نہیں، اسی لیے سارے نہ سہی لیکن کئی لوگوں کے پاس جب مواقع آئیں گے جو آپ کی قابلیت سے میل کھاتے ہوں تب وہ آپ کی جانب ہی دیکھیں گے، دوسروں کی تعریف اور تجویز کی بہت اہمیت ہے آج کے دور میں، اسی کو “نیٹ ورکنگ” (networking) کہتے ہیں۔ دوسروں کے لیے سوچنا اور انکی مدد کرنا ہی نیٹ ورکنگ ہے، نہ کہ دوسروں کے فون نمبر سیو کرنا اور کارڈ لے کر جمع کرتے رہنا۔ نیٹ ورکنگ بھی آپ کی پروڈکٹوٹی بڑھاتی ہے۔

ایک بات کا دھیان رہے کہ سوچ یہ ہو کہ “میں اس انسان کے لیے کیا کرسکتا ہوں” “ میری ذات سے اس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے” نہ کہ “یہ انسان میرے لیے کیا کرسکتا ہے۔” امریکہ میں سیلیکون ویلی میں یہی سوچ عام ہے کہ “میں کیسے کسی پرابلم کو حل کرسکتا ہوں” نہ کہ میں “اربوں ڈالر کیسے بنا سکتا ہوں!!” (کیونکہ جتنا پیچیدہ مسئلہ حل ہوگا اتنا ہی آپ کے کامیاب ہونے کے مواقع ہوتے ہیں)

آپ کو ہر وقت دوسروں کے متعلق نہیں سوچنا، کچھ جگہوں پر اپنے متعلق سوچنا غلط نہیں، لیکن دوسروں کے کام آنا ہی آپ کی حقیقی ویلیو طے کرتا ہے۔ دوسروں کی مدد میں لگایا جانے والا کام زندگی کے کسی بھی موڑ پر آپ کے لیے پروڈکٹو ثابت ہوسکتا ہے۔ آپ کی ذات سے دوسروں کو کیا فائدہ ہے یہی آپ کی حقیقی ویلیو ہے۔

پروڈکٹوٹی پر آپ کی تلاش چند پوائنٹ پر نہیں رکنی چاہیے، اسکی تعریف بدلتے دور کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، آپ کو مزید تجربات کرکے اپنے آپ کو پروڈکٹو کرنے کے نئے طریقوں کی تلاش جاری رکھنی چاہیے۔

Advertisement
Back to top button