سماجیسیاستشوبز

ڈوئنگ ٹائم ڈوئنگ ویپسنا

ندا اسحاق

سال انیس سو ستانوے میں دو اسرائیلی خواتین نے انڈیا کے تیہار جیل پر ایک ڈاکیومنٹری”ڈوئنگ ٹائم ڈوئنگ ویپسنا” بنائی۔ آخر اس جیل میں ایسا کیا ہوا تھا کہ خواتین کو اسرائیل سے انڈیا آکر ڈاکیومنٹری بنانے کی زحمت کرنی پڑی؟

انڈیا میں جب کسی پولیس آفیسر کو سزا دینی ہوتی تو اسکی پوسٹنگ تیہار جیل میں کروا دی جاتی۔ آئی-پی-ایس آفیسر کرن بیدی (Kiran Bedi) کو سزا کے طور پر نہیں، عام پوسٹنگ کے تحت تعینات کیا گیا تیہار جیل میں۔ بیدی نے اپنا پہلا اور آخری اسٹیٹمنٹ “یہ جیل نہیں بلکہ ایک بدحال چڑیا گھر ہے” لکھ کر گورنمنٹ کو بھیجا، اس کے بعد انہوں نے حکومت کو خط پہ خط لکھ کر وقت ضائع کرنے کی بجائے جیل میں کام کرنا شروع کیا۔ کرن جیل میں ریفارمز لانے کے لیے کسی بھی طریقے کو اپنانے کے لیے تیار تھیں، اس سب میں انہوں نے ہوم منسٹر کو بھی اعتماد میں لے لیا تھا۔ کرن نے افسران سے لے کر عام سپاہی تک سے پوچھا کہ ان کے مطابق کونسے طریقوں سے اصلاحات لانا ممکن ہوسکتا ہے؟

جن میں سے ایک عام سپاہی نے کہا کہ:

 “میڈم میں بہت زیادہ ڈپریشن اور غصے میں ہوتا تھا اور نشہ بھی کرتا تھا، میرے گھر والے مجھ سے بہت پریشان تھے، میں نے ویپسنا (mindfulness meditation) کا کورس کیا(جو کہ فری میں ہوتا ہے انڈیا میں) اور اب میں بہت پرسکون رہنے لگا ہوں، مجھے امید نہیں تھی کہ میں کبھی اپنے غصے پر قابو پا سکوں گا۔” (ہمارے گھروں میں اگر عمر میں چھوٹے کوئی مشورہ دینے کی جرات کریں تو ہمارا انداز ہوتا ہے کہ ‘اچھا اب تو کل کا بچہ ہمیں سکھائے گا کہ ہمیں کیا کرنا ہے’).

بیدی کو ریسرچ کے بعد سپاہی کی بات سمجھ آئی اور انہوں نے باقی کے اصلاحات کے ساتھ اس عجیب اور انوکھے طریقے کو بھی شامل کرلیا اور جیل میں ایس-این گو ینکا (جو مائینڈ فلنیس کے استاد ہیں) کی مدد سے افسران، سپاہی اور قیدی سب کو ویپسنا کرنا پڑا اور جیل میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں، یہی وجہ ہے کہ تیہار جیل توجہ کا مرکز بنا ڈاکیومنٹری کے لیے۔ لیکن ہمارے لیے اس ڈاکیومنٹری میں کیا سبق ہے؟؟؟

اس پوسٹ کا مقصد ویپسنا میڈیٹیشن کا پرچار نہیں ہے (کیونکہ میڈیٹیشن کی تکنیک ہر کسی کے لیے کارآمد نہیں ہوتی) بلکہ یہاں لفظ “اصلاحات” (reforms) مدِ نظر ہے۔

ہم سب “دنیا” نامی “جیل” میں “زندگی” نام کی “سزا” کاٹ رہے ہیں۔ جب جیل کی حالت خراب ہو تو سزا اور بھی کٹھن لگنے لگتی ہے۔ ہم سب کو اپنی زندگی میں کبھی کبھار رشتوں، کیرئیر، مالی حالات، صحت، دقیانوسی نظریات، دوستوں کی صحبت میں ریفارمز کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر اصلاحات کے لیے کچھ ایسے طریقوں اور راستوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے جو عام یا مشہور نہیں ہوتے یا جنہیں اپنانے سے ہمیں خوف آتا ہے۔

 اگر بڑے اصلاحات چاہیے زندگی میں تو بڑی ہمت اور بڑے رسک لینے ہوتے ہیں، بہت سی پرانی چیزوں کو الوداع کہہ کر نئے اور unknown کو زندگی میں جگہ دینی ہوتی ہے۔ کرن بیدی کی طرح رونا دھونا کرنے پر انرجی ضائع نہ کرنے کی بجائے موجودہ وسائل(resources ) کا استعمال کرتے ہوئے بدلاؤ لانا ہوتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کو اصلاحات کا درس دینے والے کیا اپنی زندگی میں اصلاحات لانے کی ہمت رکھتے ہیں؟ حکومتِ پاکستان تو ہمارے کنٹرول میں نہیں البتہ ہماری ذاتی زندگی پر ہمارا تھوڑا بہت کنٹرول ضرور ہے۔ زندگی میں اصلاحات کی ضرورت ہم سب کو ہوتی ہے، اور کبھی کبھار اس کے لیے ایسے راستوں کا چناؤ کرنا پڑتا ہے جو مشہور نہیں ہوتے اور روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ جو زندگی کے ساتھ تجربات کرنے کی ہمت رکھتے ہیں وہ بہت سے مسائل کا حل تلاش کرنے میں اکثر کامیاب رہتے ہیں۔ 

(کرن بیدی کے متعلق مشہور ہے کہ جب وہ ٹریفک پولیس میں تعینات تھیں تو ان کے ایک سپاہی نے انڈیا کی اس وقت کی وزیرِ اعظم اِندیرا گاندھی کی گاڑی جو غلط جگہ پارک تھی کو کرین کے ذریعے اٹھوایا تھا، کرن نے اپنے سپاہیوں کو آرڈر دے رکھا تھا کہ کسی کی گاڑی کو نہیں بخشنا، بعد میں جو ہوگا وہ دیکھ لیں گی، جب باس ہمت والا ہو تو امپلائی بھی کارکردگی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے) 

Advertisement
Back to top button