ٹیکنالوجیخبریںسماجی

“سیلاب اور طویل المعیادیت”

ندا اسحاق

ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس مرتبہ سیلاب کی حیران کن تباہی کے پسِ پشت “ماحولیاتی تبدیلی” (climate change) اور پاکستان کا خستہ اور برا “بنیادی ڈھانچہ” (infrastructure) ہے۔ اور یہ دونوں عناصر ہمیں جس نظریہ کی جانب لے کر جاتے ہیں اسے “طویل المعیادیت” (long-termism) کہتے ہیں، جسکا مقصد ایسی حکمتِ عملی اپنانا ہے جو طویل المعیاد ہے، جس کا پاکستان میں شدید بحران ہے(نظریہ ‘طویل المعیادیت’ کے بانی فلسفی ولیم میک ایسکل ہیں)۔

سب سے پہلے آپ کو بتاتی ہوں کہ ‘طویل المعیادیت’ کا نظریہ کیا ہے؟ اس نظریے کو مغرب میں پذیرائی مل رہی ہے اور پاکستان کا کیس کیوں اس نظریہ پر پورا بیٹھتا ہے؟

انسانیت اپنی تاریخ کے بہت ہی نازک موڑ پر ہے (بلکل پاکستان کی مانند)۔ ماہرین کے مطابق انسان (homo sapien) اس وقت ایک ٹین ایجر (teenager) کی مانند ہے جس کے آگے اسکی ساری زندگی پڑی ہے گزارنے کے لیے(چونکہ انسان ٹین ایجر ہے تبھی وہ بہت لاپرواہ اور مستقبل میں ہونے والی تباہی کو نہ دیکھ سکنے کی حالت میں ہے)۔ انسان کو دنیا میں تقریباً 300,000 سال ہوئے ہیں، اور پچھلے دس ہزار سال میں کاشتکاری اور پھر صنعتی انقلاب نے انسان کو بہت کم عرصے میں بہت ترقی دی ہے۔ لیکن انسان ایک ذہین اور نایاب مخلوق ہونے کے ساتھ خود کو تباہ اور برباد کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے، یعنی جتنی جلدی ترقی کی ہے اتنی جلدی تباہی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر انسان اس صدی میں اپنے فیصلے اور اقدار (values) کا چناؤ ٹھیک سے کر لیتا ہے تو اگلے چھ سو ملین سے آٹھ سوملین (600-800 million years) سال تک زندہ رہ سکتا ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس دوران وہ سائنس کی مدد سے باقی کے سیاروں پر اپنا ڈیرہ جما لے کیونکہ ماہرین کے مطابق اس وقت انسان نے ممیلین (mammalian) مخلوق ہونے کے ناطے محض ایک فیصد (1%) انسانوں کو جنم دیا ہے اور ابھی نناوے فیصد (99%) انسانوں کو اس دنیا میں آنا ہے، اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے ہمیں “آج” (present) نہیں بلکہ “کل” (future) کے بارے میں سوچنا ہے، جو کہ بہت ہی مشکل (لیکن ناممکن نہیں) کام ہے۔

طویل المعیادیت کا نظریہ کہتا ہے کہ ہم سب پر اخلاقیاتی طور ہے فرض ہے کہ آنے والے انسانوں کے لیے ایسی دینا چھوڑ کر جائیں جہاں وہ مزید پھل پھول کر اس سیارے سے باہر بھی اپنے لیے گھر بنائیں کیونکہ انسانوں کا مستقبل بہت روشن ہے۔ یہ مسئلہ گلوبل ہے، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی، آرٹیفشل انٹیلیجنس، نیوکلیر بومب، بائیو ویپنز، جنیات، بائیو ٹیکنالوجی، اور پین ڈیمک جیسے معاملات اگر ٹھیک سے نہیں سلجھائے گئے یا ان کو انسانوں کی بھلائی کو چھوڑ انکی بربادی کے لیے استعمال کیا گیا تو پھر انسانیت کے پاس زندہ رہنے کے لیےمحض چند صدیاں رہ جاتی ہیں۔

فلسفی ولیم میک ایسکل کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ مستقبل کیسا ہوگا لیکن ہم انسانیت کی تاریخ کے سب سے اہم دور میں رہ رہے ہیں جہاں سے انسانیت کے مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یہ صدی ، جب سے انسان کرۂ ارض پر موجود ہے، کے حوالے سے بہت اہم ہے اور تبھی اس میں موجود انسانوں پر اخلاقی طور پر فرض ہے کہ وہ ایک ذہین ترین مخلوق کو غلط اقدار (values) اور برے فیصلوں کے ہاتھوں ضائع نہ ہونے دیں، مثال کے طور پر دہشت گردی سے بچاؤ پر دو سو اسی بلین ڈالر لگے ہیں آج تک اور کروناسے لڑنے پر آٹھ بلین، جبکہ سب سے زیادہ اموات کرونا(pandemic) سے ہوئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسانوں کو اپنی ترجیحات بدلنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ مستقبل بہت ڈراؤنا ہوسکتا ہے، بقول ولیم کے۔ ولیم یہ بھی بتاتے ہیں کہ کیسے ہم اداروں، سائنسدانوں، عام لوگوں کو ‘طویل المعیادیت’ (long-termism) کو فروغ دینے کے لیے مختلف حکمت عملی اور اقدامات لینے پر آمادہ کرسکتے ہیں اور کیسے طالب علم ان کیرئیر کا چناؤ کر سکتے ہیں جس سے ہم اپنی نسلوں کو بہتر مستقبل دے سکیں (مزید نہیں لکھ سکتی ورنہ پوسٹ بہت لمبی ہوجائے گی)۔

ٹک ٹاک میں ایموشنل میوزک کے ساتھ سیلاب کی وڈیوز شیئر کرنے کا میرے نزدیک کوئی فائدہ نہیں (انشااللہ سوشل میڈیا اور اسکی طاقت پر ایک نامور کمپیوٹر سائنسدان کا تبصرہ جلد شیئر کروں گی، ہوسکتا ہے سوشل میڈیا کا فائدہ ہو بھی، شاید!)۔ پاکستان کو بے پناہ مسائل کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے، اور اسکا ثبوت اس بار کی بارشیں اور تباہ کن سیلاب ہے۔ آپ اس موسمیاتی تبدیلی سے بھاگ نہیں سکتے، بحیثیت انسان ہم ایک شدید قسم کی تصریف پذیر (adaptable) مخلوق ہیں، یہ ہماری سوپر پاور ہے اور یہی ہمیں سکھاتی ہے کیسے نئی ایجادات کرکے نئے مسائل سے نمٹ کر نئے ماحول میں رہناہے (جیسے جاپان نے موسمیاتی تبدیلی سے آنے والے سیلاب سے بچنے کے لیے زمین دوزسرنگیں بنائی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ رہنا تو یہیں ہے بس ذہانت کا استعمال کرکے قدرتی آفات کو مات دینی ہے) لیکن یہی ہماری کمزوری بھی، کیونکہ ہم نظروں سے اوجھل مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور یہی وجہ کہ ہم آج میں موجود اپنی “ترجیحات” نہیں بدلتے۔

دنیا کی مانند پاکستان بھی یقیناً نازک موڑ پر ہے، جن کے پاس اختیار ہے ان کے آج کے فیصلے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل لکھیں گے۔ یہ صدی ایک بہت بڑا اور دلچسپ موڑ ہے ہم سب کے لیے۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس معاملات کو “کائنات کی رو سے دیکھنے” والی صلاحیت
موجود نہیں ہے، اور نہ ہی عوام کے پاس۔ ڈیم بنانے ہیں یا زمین دوز سرنگیں، یہ فیصلہ کرنا انکا کام ہے جن کے پاس اختیار ہے، میں کوئی بھی مشورہ دوں اہمیت نہیں رکھتا البتہ اگر آپ کسی ادارے میں اختیار رکھتے ہیں تو اپنا کام بہتر طریقے سے کیجیے۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنے اقدار (values) اور ترجیحات ( priorities) کو جلد از جلد تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وقت بہت کم ہے۔ حکومت سے جواب مانگنا ضروری ہے لیکن اپنا کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے، اگر حکمران اور افسران چور اور کرپٹ ہیں تو آپ قدرتی آفات کے وقت دوگنی قیمت میں اشیاء فروخت کرتے ہوئے خود کو کن القابات سے نوازیں گے؟ خود میں اور اپنے بچوں میں ان اقدار اور ترجیحات کو بوئیں جو آپ کو انسان ہونے کا احساس دلائیں۔ ٹک ٹاک اور جذباتی پیغامات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر اپنے ارد گرد عملی دنیا میں دیکھیں کہ کونسے کام ادھورے ہیں اور کس جگہ آپ کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہے، اور ایک چھوٹا سا ہی سہی لیکن معاشرے میں اپنا کردار ضرور نبھائیں کیونکہ وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ اگر مدد کرسکتے ہیں تو مدد کریں سیلاب زدگان کی مالی/اخلاقی/جذباتی طور پر، غلط انفارمیشن اور ٹک ٹاک کی وڈیوز دیکھنے سےاجتناب ، شدت پسند سیاسی تبصروں سے پرہیز اور گرہیز کرسکتے ہیں تو ضرور کریں۔ بیشک ‘طویل المعیادیت’ (long-termism) کا نظریہ کاروبار، رشتوں، صحت اور دیگر معاملات میں بھی کارآمد ہوتا ہے۔

ڈیم ضروری ہیں یا کوئی اور اقدامات، یہ سب سوچنے کے لیے ادارے موجود ہیں میرے پاس ان سب معاملات کا بہتر علم موجود نہیں اور نہ ہی اختیار۔ البتہ سیلاب کا تو نہیں معلوم لیکن ہمارے ملک کے افسران، حکمران اور عوام کے اقدار (values) اور ترجیحات ضرور انہیں لے ڈوبیں گی اگر بروقت بدلی نہیں گئیں۔

Advertisement
Back to top button