تعلیمٹیکنالوجیخواتین کا صفحہصحت

اینٹی-نیٹلزم

ندا اسحاق

“ٹین ایج میں بلنگ (bullying )کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف کا سامنا رہا، میں ٹروما سے گزرا۔ خراب صحت نے زندگی اور بھی کٹھن بنا دی، سوچتا ہوں کہ اگر میرے والدین مجھے اس دنیا میں نہ لاتے تو شاید مجھے اتنی تکالیف کا سامنا نہ کرنا پڑتا”۔

یہ ای-میل اور اس جیسی کئی ای-میلز، انٹی-نیٹلزم کے فلسفی اور حامی ڈیوڈ بینٹارکو موصول ہوئیں انکی کتاب “ better never to have been”کے شائع ہونے کے بعد۔ ڈیوڈ کو یقینا سخت تنقید بھی سہنے کو ملی اپنے نظریات کی وجہ سے۔ ڈیوڈ انٹی-نیٹلزم کے سپورٹر ہیں اور یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسانوں کو سوچ سمجھ اور عقل کا استعمال کرتے ہوئے مزید انسانوں کو اس دنیا میں جنم دینا بند کرنا چاہیے کیونکہ موجودگی سے ملنے والی درد اور تکلیف، دنیا کی خوبصورتی سے روشناس نہ ہونے والی تکلیف سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ڈیوڈ نے کتاب میں کئی آرگیومنٹز پیش کیے ہیں جو ان کے نظریات کی حامی بھرتے ہیں۔ 

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ چیزوں کو بنانا مشکل جب کہ انہیں تباہ کرنے میں چند لمحات نہیں لگتے۔ پلیژر کے چند لمحات کو حاصل کرنے کے واسطے ہمیں لمبے کٹھن سفر سے گزرنا پڑتا ہے۔ فطرت میں chronic pain تو ہے لیکن chronic pleasure کیوں نہیں؟ ایک خواہش جس کا پلیژر چند سیکنڈ/گھنٹے/دن ہوتا ہے اس کے حصول کے لیے سالوں محنت کرنی پڑتی ہے، پھر بھی نہ اطمینان ملتا ہے اور نہ ہی ساری خواہشات پوری کرنے کا وقت میسر ہوتا ہے۔ زخم لگنے میں چند منٹ جبکہ ٹھیک ہونے میں مہینوں/سالوں لگتے ہیں۔ بیماری، ٹروما، ناانصافی، ابیوز، ان سب کو ہیل کرنے میں ہی ساری زندگی گزر جاتی ہے، بقول ڈیوڈ کے۔ اور جب کوئی اپنی بنیادی ضروریات پوری کرلے تب الگ قسم کی ضروریات جنم لیتی ہیں، جنہیں دولت شہرت ملے وہ بھی اپنی غیر مطمئن زندگی کا رونا روتے ہیں، ضروریات اور تکالیف کی ٹریڈ میل کبھی تھمتی ہی نہیں، ڈیوڈ کے نظریات کے مطابق۔ پاور اور دولت کی لالچ میں لوگ دوسرے انسانوں کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ ڈیوڈ بینٹار کے پاس آرگیومنٹز کا انبار ہے اور اس سے نمٹنے کے کئی طریقے بھی جسے ایک پوسٹ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

ایسے ہی کچھ انٹی-نیٹلزم والے نظربات جرمن فلسفی آرتھر شوپنہار کے بھی ہیں جنہوں نے خود بھی اکیلے زندگی گزاری۔ ہندو اور بدھ مت کے فلسفے میں بھی زندگی کو ‘دکھ’ سے تشبیہ دی ہے، اور دوبارہ پیدا نہ ہونے کو نجات “nirvana” کہا ہے، یہ نظریات انٹی-نیٹلزم کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ خوشی کی نسبت دکھ زیادہ ہیں زندگی میں جس کے تحت existence یقینا گھاٹے کا سودا ہے non-existence کی نسبت۔ ان سب کا ماننا ہے کہ زندگی میں اگر پلیژر ہے بھی تو بہت کم ہے ، ملنے والے درد اور تکلیف کے مقابلے۔

اینٹی-نیٹلزم کے نظریے کو شدید نفرت کا سامنا ہے کیونکہ یہ انسان کی زندگی کے بیالوجیکل مقصد یعنی نسل بڑھانے کے فطری عمل کو چیلنج کرتی ہے۔ اس وقت مغربی ممالک، جاپان، سنگاپور، ساؤتھ کوریا کی آبادی منفی میں جاری رہی ہے یا پھر رکی ہوئی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں آنے والے مستقبل کو یہ کامیاب ممالک جس نظر سے دیکھ سکتے ہیں ہم تیسری دنیا کے پاس وہ حالات نہیں کہ ہم مستقبل میں آنے والے چیلنجز کو بھانپ سکیں۔ مستقبل کیسا ہوگا کوئی بھی سو فیصد کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آٹومیشن کے دور میں انسانوں کی کیا قدر و قیمت ہوگی ہم کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن شاید یہ ترقی یافتہ ممالک آنے والے چیلنجز کو صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں یا شاید یہ انکی ترقی کے مضر اثرات ہیں(جی ہاں ترقی کے بھی مضر اثرات ہوتے ہیں)؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا! 

(مندرجہ بالا نظریات محض سکے کا دوسرا رخ دکھانے اور مزید بحث و مباحثے کے لیے بیان کیے گئے ہیں میں بذات خود ان میں سے کسی نظریے کی سپورٹر نہیں)

Advertisement
Back to top button