تعلیمثقافتسماجی

اختلافِ رائے اور ہمارا رویہ”

ندا اسحاق

ہمارا قومی رویہ ہے جب بھی کوئی ہماری بات سے اختلاف کرتا ہے یا ہمارے نظریات سے مختلف نظریات رکھتا ہے تو ہم نہ ہی صرف اس سے لڑتے ہیں بلکہ اس اسکا تمسخر بھی اڑاتے ہیں۔ روشن خیال کو مذہبی افراد جاہل جبکہ مذہبی کو روشن خیال گمراہ لگتے ہیں(وہ الگ بات ہے کہ اکثر خود کو روشن خیال کہنے والے اصلی زندگی میں جہالت کے اندھیروں میں ہوتے ہیں اور مذہبی خود گمراہ)۔ کسی کا تمسخر اڑانا آپ کے اندر کے گہرے عدم تحفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ 

مجھے اکثر یہ صلاح ملتی ہے کہ وہ ٹاپک جو متنازعہ ہیں ان پر لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ہمارے لوگوں میں برداشت کی کمی ہے اور یہ سب جاہل ہیں۔ جبکہ میرا ذاتی تجربہ اس کے برعکس ہے۔ اگر آپ یہ سوچ کر کچھ لکھتے ہیں کہ آپ “عالم” ہیں تو اختلاف کرنے والے ہمیشہ “جاہل” ہی لگتے ہیں۔ میری ذاتی زندگی میں اپنے محدود تجربے کے مطابق میں نے بہت سے روشن خیال کو سطحی جبکہ مذہبی لوگوں کو عملی زندگی میں کامیاب اور خوش پایا ہے، البتہ کئی جگہ مذہبی لوگوں کو ڈپریشن اور روشن خیال کو کافی حد تک مطمئن دیکھا ہے، جس کی یقیناً کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن کا روشن خیال یا روایتی ہونے سے اکثر تعلق نہیں دِکھتا۔ وجوہات میں “مالی حالت(کلاس)” اور “اختلاف رائے کے لیے عدم برداشت” شامل ہیں۔

مالی حالات: 

ہم سب کو کلاسزم سے اعتراض ہے لیکن ہمارے اعتراض سے یہ ختم نہیں ہوتا۔ کلاس کی آپ کی شخصیت اور زندگی پر تقریباً مکمل طور پر گرفت ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ایک امیر بچے کے پاس غریب بچوں کی نسبت الفاظ کا ذخیرہ زیادہ ہوتا ہے۔ آپ کا رویہ، دوسروں سے گفتگو کا انداز اور سماجی میل جول کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کہاں پیدا ہوئے ہیں۔ ایک مالی اعتبار سے خوشحال لڑکا جو بیشک مذہبی یا روایتی ہو لیکن اس کے پاس سپورٹ کرنے والے والدین اور دوستوں کا اچھا سرکل ہو تو وہ لبرل لڑکا جس کے مالی حالات اچھے نہیں یا وہ غریب گھرانے میں پیدا ہوا ہے، نطشے کا فلسفہ یا کوئی بھی نظریہ اسکی زندگی کی حقیقت نہیں بدل سکتا، وہ پڑھنے اور فیس بک پر لکھنے کی حد تک تو فیمنسٹ اور لبرل ہوگا لیکن ان سب کا اثر اسکی روزمرہ کی عملی زندگی میں نظر نہیں آئے گا، اسکے حالات ان نظریات کو سپورٹ نہیں کریں گے۔ بلکل ویسے ہی وہ خواتین جو خوشحال گھرانوں میں جنم لیتی ہیں، چاہے وہ اسکارف اوڑھتی ہوں لیکن انکی مالی حیثیت انکو شدت پسند نہیں ہونے دیتی، انہیں اسکارف میں کوئی شدت نظر نہیں آتی،اور نہ ہی مغربی لباس میں کوئی آزادی۔ مالی حالات انسان کو اکثر شدت پسندی کی جانب لے کر جاتے ہیں۔ (اکثر کیسز میں ایسا نہیں بھی ہوتا جو میں نے بیان کیا ہے، exception ہر جگہ ہے)

اختلاف رائے کے لیے عدم برداشت:

ٹیڈ ٹاک کی اس وڈیو میں اس شخص نے ایک بہت ہی اہم تجربہ کرکے اس تجربے کو بیان کیا ہے۔ یہ بہت ہی اہم وڈیو ہے اسے لازمی دیکھیے۔

اسپیکر ایک سیاہ فارم موسیقار ہے، جسے بچپن میں نسل پرستی کو تجربہ کرنا پڑا جس کی وجہ سے نسل پرستی کو لے کر اسکے ذہن میں کئی سوالات تھے۔ نسل پرست انگریزوں کا گروہ KKK جو بہت شدت پسند ہے، کے ایک ممبر جس نے دو سیاہ فارم امریکیوں کا قتل اور ایک سیاہ فارم عبادت گاہ میں بم پلانٹ کیا تھا کو انٹرویو کے لیے ایک ہوٹل میں بلایا۔ ممبر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انٹرویو ایک سیاہ فارم موسیقار لینے والا ہے، KKK کا ممبر اپنے ساتھ اپنے گارڈ کو لایا تھا جو اسلحے سے لیس تھا، سیاہ فارم موسیقار کو دیکھ کر چونک گیا۔ دونوں کے درمیان بات چیت شروع ہوئی۔ کئی نقطوں پر حامی تو کئی پر اختلاف ہوا، سیاہ فارم نے KKK کے مختلف پروگرام اور ریلیاں بھی اٹینڈ کیں، اور انکا نظریہ سمجھنے کی کوشش کی۔ 

نہ تو سیاہ فارم KKK کے نسل پرست فلسفے پر متفق ہوا اور نہ ہی اس نسل پرست ممبر نے اپنا گروپ چھوڑ کر انسانیت والا گروپ جوائن کر لیا، دونوں آج بھی اپنے نظریات پر قائم ہیں، لیکن اگر کچھ مختلف ہوا تو وہ تھا آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات “سننا” اور “سمجھنا”، چاہے کتنی ہی فضول اور غیر منطقی بات ہو لیکن اسے “سننا” اور “سمجھنا” سامنے والے کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اسکی بات کی اہمیت ہے۔ ہمارے نظریات ہماری شناخت ہوتے ہیں اور شناخت کو بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمیں “سنا” جائے، کوئی اپنے نظریات بدلے یا نہ بدلے یہ ایک الگ بات ہے، لیکن کسی کا تمسخر اڑا کر اسکی بات رد کرنے کا ردِ عمل اکثر برا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے بچوں کی بات غور سے سنتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی بیوقوفانہ کیوں نہ ہو تو یقینا انہیں بھی اچھا لگتا ہے، ہم بیشک انکی بات پر عمل نہ کریں لیکن انکو اس بات سے اطمینان ملتا ہے کہ انہیں “سنا” گیا۔ کسی سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اسکا نظریہ سن لینے میں کوئی حرج نہیں۔

Advertisement
Back to top button