انتقال پر ملالسماجیسیاستلٹکوہلوئیر چترال

لوٹ کوہ کریم آباد کا ہیرا مٹی سے بغل گیر ہوا (آخری قسط)

میری ڈائری کے اوراق سے

شمس الحق

پہلی قسط میں ہم نے یہ بتایا تھا کے ہم سب کے دوست سلطان شاہ ( جو کہ اب ہم میں نہیں رہے ) تلاش معاش میں کراچی گیے تھے ۔ سلطان شاہ نے مجھے بتا یا تھا کہ کراچی پلیٹنم کالونی میں یاسین کا ایک باسی رہتا تھا جن کے اُس کالونی کے مقامی لوگوں سےمظبوط مراسم تھے اور یہ آدمی گویا ہمارے لئے نوکری کا بہترین ذریعہ تھے ۔ اُن کے پاس لوگوں کے گھروں میں ملازمتوں کے حوالے سے بڑی معلومات تھیں ۔ سلطان شاہ کو بھی اُن ہی کے پاس لے جایا گیا ۔ قصہ مختصر یہ کہ اُنہیں ایک گھر میں ملازمت مل ہی گئی ۔ اُس گھر میں ایک انوکھی بات یہ تھی کہ ایک صندوقچہ تھا جس کے اندر ایک اور دنیا آباد تھی ۔ یہ اُس زمانے کا بلیک اینڈ وائٹ 14 انچ کا ٹیلی وژن تھا ۔ جو کہ لکڑی کے ایک چھوٹے سے صندوق میں پابند سلاسل تھا دو چھوٹے کیواڑوں کے دروازوں کو ملا کر قفل لگا ہوا تھا اور دوپہر چار بجے گھر کا مالک صندوق کے دروازے کے دونوں کواڑ احتیاط سے وا کر تے اور ٹیلی وژن چل پڑتا اور مجھے لگتا کہ اس سے بڑی عیاشی دنیا میں اور کہیں موجود نہیں ہوگی۔ یوں جوہڑ کے منڈک کی مانند دن اور راتیں گزرنی شروع ہوئیں ۔ دن کو گھر کے اندر ہلکا پھلکا مگر مناسب کام کاج کرتا اور جب تھکاوٹ ہوتی تو چار بجے کے بعد ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ کر وقت گزار دیا جاتا ۔ لیکن راتیں قیامت بن گر بیت جاتیں ۔ کہتے تھے کہ کبھی گھر کے کسی کونے پر اور کبھی کسی سیڑھی کے نیچے میرا بستر ہوا کرتا تھا اور میں سوچوں کی وادی میں گم سم ہوجایا کرتا اور یوں پو پھٹی تھی ۔ یہ تھی میری زندگی لیکن "رب کے دربار میں دیر ہے اندھیر نہیں” اس جملے سے بڑا سچ دنیا میں اور کوئی نہیں ۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد میری ملاقات میرے ایک اور ہم جماعت مراد ، جو کہ اجکل فوکس میں کام کر رہے ہیں ، جو سوسوم سے میرا ہم مشرب و ہم رکاب رہا تھا اور مجھ سے کچھ پہلے کراچی آیا ہوا تھا ، سے ہوئی ۔ دوستوں کے ذکر سے یاد آیا کہ وادی لوٹ کوہ کی کئِ اور عظیم شخصیات موصوف کے جگری دوستوں میں شامل ہیں ڈاکٹر قیوم اور مرحوم اکرام شاہ ۔ سلطان شاہ بھائی جب بھی ان دوستوں کے حولے سے بات کرتے تھے تو مرحوم اکرم شاہ کا ذکر چھڑتے ہیں ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا سلطان شاہ صاحب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے اپنے ہم جماعت مراد کی کہانی جاری رکھی اور کہا ” ہم جب ملے تو میں اور وہ، مراد، مل کے اتنے روئے کہ ہمارے دامن تر ہو گیے ۔ خوب رونے کے بعد جب دل ہلکا ہوا تو اُنہوں نے کہا کہ گارڈن میں ایک جگہ ہے جہاں ایک نائٹ سکول ہے جس میں مفت پڑھائی ہوتی ہے اور ہمارے علاقے کے بچوں کے وہاں جانے کی خبریں عام ہیں ہم کیوں نہ اُدھر کا رخ کریں ہو سکتا ہے کہ قسمت جاگ اُٹھے ۔ یہ اسماعیلیوں کا جماعت خانہ تھا جہاں شام کے وقت مفت پڑھائی ہوتی تھی ۔ ہم گئے اور ہماری پڑھائی شروع ہو گئی ۔ کچھ دنوں بعد ہماری اندورنی صلاحیتیں آشکار ہوئیں اور ہمارے اساتذہ نے کہا کہ وہ ہمیں بورڈنگ میں داخل کریں گے جہاں سونا ، کھانا سب مفت ہوگا لیکن پڑھائی سخت کوشی سےکرنی ہوگی دوسری شرط یہ کہ بورڈنگ میں داخلے کےلئے ایک ٹسٹ سے گزرنا پڑے گا ۔ ہمیں یہ شرط بھی منظور تھی ۔ امتحان میں بیٹھے اور مضون آیا ” تریچمیر ایک تاریخی چوٹی ہے ، اپنے خیالات کا اظہار کیجیے” مضون آسان تھا لیکن پوچنھے کا انداز خوفناک۔ میں نے لکھنا شروع کیا ۔ مجھے آج کی طرح یاد ہے کہ میرا خط انتا ترچھا تھا کہ کاغذ کی دائیں جانب سے پہلی سطر شروع کی اور جب جملہ ختم ہوا تو میں کاغذ کے آخر میں بائیں کونے کے کنارے پر پہنچا ہوا تا ۔ یہی انداز رسم الخط رہا اور مضمون پورا ہوا ۔ ترچمیر پر خوب اظہار خیال ہوا کیوں کہ میں ہی تھا جس کا جھونپڑا اسی فلک بوس چوٹی کے دامن پر واقع تھا ۔

 ٹسٹ دیا اور کراچی کی فضأ نے نے بے وقت اپنے تیور دکھاناشروع کیا اور میری صحت بگڑ گئی تو سیدھا سوسوم پہنچا ۔ یہاں کچھ دن گزارنے کے بعد نواز بھائی کراچی سے یہ نوید لیکر پہنچے کہ ترچمیر کی چوٹی مجھ پر مہربان ہو گئی ہے ۔ لہذا میں بھاگم بھاگ دوبارہ کراچی پہنچ گیا ۔ اس وقت سلطان بھائی کا بورڈنگ میں داخلہ ہوا تھا ۔

 ایس ایم ایس سکول سے میٹرک کے بعد جب ایف ایس سی امتیازی نمبروں سے پاس کی تو میڈیکل کالج میں داخلہ کےلیے ایک ہزار روپے کی ضرورت پڑی ۔ اس ایک ہزار روپے کی اطلاع سوسوم میں والد صاحب تک پہنچنے اور پھر وہاں سے ایک ہزار روپے کے کراچی پہنچنے تک شاید چھے مہینوں سے زیادہ وقت گزر گیا اور میڈیکل کالج میں فیس جمع کرنے کےلئے صرف ایک ہفتے کی مفلت تھی ۔ سللطان شاہ بھائی کہتے ہیں کہ اسی کا نام وقت ہے وقت پر کام ہو تو قسمت بدل سکتی ہے ۔ لہذا سلطان شاہ کو صرف ایک ہزار روپے وقت پر نہ ملنے کی وجہ سے اپنا کیرئیر بدلنا پڑا ۔ کامرس کالج میں داخلہ لیا اور اچھے نمبروں سے بی کام بھی مکمل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سلطان شاہ صاحب سے صرف دس منٹ کی گفتگو کی درخواست تھی کی کیوں کہ صبح 8 بجکر 20 منٹ پر مجھے آغا خان ہائی سکول سوسوم پہنچنا تھا ۔ ہم یہیں رک گئے اور میں نے وعدہ کیا کہ مئی 2020 تک اگر زندگی نے ہم دونوں کو مہلت دی تو بہت ساری باتیں ہوں گیں ۔ اس کے بعد ۲۰۲۲ کوکراچی میں آغا خان ہسپتال میں ایک مختصر ملاقات کا شرف حاصل رہا پھر یہ درخشاں ستاررہ کل یعنی ۱۶ فروی ۲۰۲۰۲۳ کے دوسرے پہر اسلام آباد میں غروب ہوا ۔ یہ خبر سنی تو مجھے غالب؎ کا یہ شعر بار بار یاد آنے لا 

تیری فرصت کے مقابل اے عمر برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں

Advertisement
Back to top button