اپر چترالسفر کہانیسیاست

ریاست نیو یارک کی دل فریبیاں

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

ریاست نیو جرسی جہاں ہم وقتی طور پر بھائی Ehsan Jan کے گھر میں رہائش پذیر ہیں، سے ریاست نیو یارک تک یہی کوئی 24 میل کا فاصلہ ہے ( امریکہ میں فاصلے کلومیٹر کے بجانے میل سے ناپے جاتے ہیں اور یہاں پٹرول کو بھی گیس کہاجا تا ہے ، ہر چیز الٹی یہاں تک کہ بجلی کے بٹن اوپر دبانے سے بلب جلتے ہیں اور گاڑیوں کو راستے کی دائیںٰ طرف سے چلاتے ہیں ۔۔ سب کام الٹے ۔۔۔ہم آلٹے یا یہ الٹے ہے ۔ اللہ بہتر جانتا ہے ) ۔ ہم ، میں اور میری شریک حیات ، بھائی احسان اور بھائی کی معیت میں صبح لوکل بس پر نیویارک کےلئے روانہ ہوئے ۔

یہاں تمام گاڑیاں اور ٹرین وغیرہ کےلیے آن لائن بکنگ کی جاتی ہے ۔ ہماری بس کا وقت 9:45 تھا جو کی وقت کی پابندی کے ساتھ مقررہ سٹاپ پر پہنچی ہے لیکن آج یہ بس پانچ منٹ لیٹ تھی لہذا ہمارے موبائل میں ریاست کی طرف سے اس کی بھی اطلاع دے دی گئی ۔ پم پانچ منٹ پہلے بس سٹاپ پر پہنچے اور ہماری بس 9:50 پر آ کھڑی ہوئی جسے ایک دوشیزہ چلا رہی تھی ۔ میرے لئے یہ حٰیرت انگیز بات تھی۔ دروازے کھلے ہم نے بس میں لگی ایک اسکرین پر اپنا موبائل سکین کیا اور سیٹ پر بیٹھ گیے ۔ لوگوں میں , I am sorry، Excuse Me اور Thank you کے علاوہ کوئی اور گفتگو سننے میں نہیں آئی ۔ البتہ میرے بھائی احسان نے بہت ہی دھیمی آواز میں از راہ اطلاع میرے کان میں کہا کہ اس بس میں موبائل کا بے جا استعمال اور آپس میں اونچی آواز میں بات چیت کی اجازت نہیں ہے بصورت دیگر بس سے اتارا بھی جا سکتا ہے ۔ چنانچہ ہماری آواز دھیمی پڑ گئی ۔ ہم ڈرائیور کے پیچھے والی نشست پربراجماں ہوئے ۔ ڈرئیور کی سیٹ بڑی محفوظ تھی ۔ اُس کے سامنے ٹیلی فون ، راستے کی رکاوٹوں کو دیکھنے کےلئے آن لائن اسکرین کے علاوہ کچھ اور مشینیں بھی نصب تھیں ۔ ایک جگہے پر ہم ریل کی پھاٹک کے اوپر سے گذر رہے تھے تو ڈرائیور نےایک لمحے کےلئے گاڑی روک لی اور گاڑی کے خود کار دروازے خود کھل گیے اور خود بند ہوئے اور گاڑی نے دوبارہ فراٹے بھر نا شروع کیا ۔

مجھے ہمارے ملک خدا داد پاکستان کی طرح کوئی ٹریفک پولیس یا عام پولیس روڈ پر اپنی توند اپنی چالان والی ڈائری سے بھی ایک بالشت اگے نکال کر نظر نہیں آئی ۔ ڈرائیور جو گاڑی کو چلا رہی تھی وہ تمام مروجہ قوانین کا احترام کرتے ہوئے منزل کی طرف جاتی رہی۔ البتہ اس بس میں ہمارے سامنے لکھا ہوا تھا کہ ریاست کی پولیس وردی میں یا بغیر وردی میں کسی بھی وقت بس کے اندر آکر آپ کی حفاظت کی خاطر آپ سے کچھ سوالات پوچھ سکتی ہے لہذا آپ اُس کے ساتھ تعاون کیجئے ۔ ہم نے نہ کوئی پولیس دیکھی اور نہ کوئی فوجی چوکی ۔ ہم ہر بلڈنگ ، ہر دفتر اور ہر پل کی فوٹو گرافی کرتے رہے کسی فوجی جوان یا پولیس نے ہمیں اپنے لیے خطرہ سمجھ کر ہمیں فوٹو گرافی سے نہیں روکا ۔ یہاں تک کہ ہم اقوام متحدہ کی اسمبلی کی بالکونی میں بیٹھ کر ہونے والے اجلاس سے لطف اندوز ہوئے اور کئی ایک تصاویر بنائیں ۔ یہ سب کہانیاں ہم آپ کو بتائی گے ۔ بہر حال ہم اسی بس میں بیٹھ کر نیو یارک میں داخل ہوئے ۔ 

East Riverاور Hudson Rive کے بالکل درمیاں شب و روز جاگتے شہر کو MANHATTAN کہتے ہیں جوکہ ریاست نیویارک کے اندر کئی حوالوں سے اپنا منفرد مقام رکھتا ہے ۔ اگر ہم اس شہر کو دنیا کا دماغ کہیں تو بے جا نہیں ہوگا ۔ ریاست نیو جرسی جہاں ہم مختصر مدت کےلیے رہائش پذیر ہیں ، سے ادھا گھنٹے کی مسافت ہے ۔ اگر آپ نیو جرسی میں رہتے ہیں تو آپ کو تین طرح کی سواری دستیاب ہوگی ، ریل گاڑی ، ڈائرکٹ بس اور لوکل بس ۔ اگر آپ کو بہت جلدی پہنچنا ہے تو ڈائرکٹ بس یا ریل گاڑی پکڑ لیجیے ۔اگر اپ کو ریاست نیو جرسی کے گاؤں گاؤں سیر کر کے جانا ہے تو لوکل بس میں چلیے ۔ لوکل بس پکڑنے کی صورت میں آپ کو مختلف قصبوں کے بس اسٹاپ پر مسافروں کو اٹھانے کےلیے رکنا پڑے گا ۔ یاد رہے کہ کسی بھی ریاست سے نیویارک آنے کا یہی طریقہ کار ہے۔ دور دراز ریاستوں سے جہاز سے بھی سفر کیا جاتا ہے ۔

نیو جرسی سے نیویار ک سٹی میں داخل ہونے کےلیے دریاکے نیچے سے سرنگ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا یا واشنگٹن بریچ سے جانا پڑے گا ۔ ہم نے سرنگ کا راستہ اختیار کیا جوکہ Hudson River کے نیچے سے گزرتا ہے ۔ ہم جیسے ہی ٹنل سے نکلے تو ہمیں مزید زمین دوز راستوں سے آگے بڑھنا پڑا۔ یہ جو ٹرمنل ہے یہ ایک الگ دنیا ہے۔ یہ ریاست نیویارک کے نیچے بسوں اور ریل گاڑیوں کے اسٹیشنز کا ایک جال ہے یہاں 35 Subways ہیں ۔ بادی النظر میں یہی محسوس ہوگا کہ نیو یارک کا پورا شہر زمیں کے نیچے آباد ہے ۔ ہم جیسے ہی زیر زمیں شہر سے باہر آئے تو وہی چیزیں نظر سے گزریں جو صرف خواب میں ممکن تھیں ۔ اس وقت ہم MANHATTAN میں تھے جس کا وسطی حصہ تھیٹر ڈسٹرکٹ کہلاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے 7 اوینیو میں دنیا کے وہ مشہور فلم اور ٹی وی اسٹوڈیوز موجود ہیں جو صدیوں سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں ۔ امریکہ کے مشہور اخبار ” نیویارک ٹایم ” کے علاوہ نیئے سال کی گھڑیال یعنی ٹائم سکوائر بھی یہی موجود ہے جہاں ایک تخمینے کے مطابق یہاں روزانہ آنے والے سیاحوں کی تعداد 5 ہزار ہے ۔ Manhattan کا نشیبی حصہ

فینانشل ڈسٹرک کہلا تا ہے جو کہ امریکہ بلکہ معاشی لحاظ سے پورے کرہ ارض کا دل ہے ۔ کہتے ہیں کہ ڈالر کی ساری جادو گری اسی مقام پر ہوتی ۔ڈالر کی طاقت کی وضاحت کے لیے سونے کی اینٹیں اسی مقام پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں یہ جگہ یعنی Wall Street اور world Trade Centre سال میں کچھ مدت کے لئے عوام کےلئے کھولی جاتی ہے -یہی نہیں بلکہ Manhattan کی شہرت کے بے شمار حوالے اور بھی ہیں جیسے میڈم توساد میوزیم ، نیویارک پبلک لائبریری ، ٹائم سکوائر، ایمپائر اسٹیت بلڈنگ، بے شمار عجوبوں سے مزئین سنٹرل پارک، مختلف ممالک کے سفارت خانے ، اقوام متحدہ کا دفتر اور سکورٹی کونسل کا دفتر ۔ 

ہم نے ان تمام مقامات کی سیر کی اور ہماری آنکھیں کھلیں اور ہمیں یقین آیا کہ آج سے پہلے ہم ایک ایے حصار کے اندر بند تھے کہ جہاں سے باہر کی دنیا نظر نہیں آ رہی تھی ۔ یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا اگر میرے چھوٹے بھائی یہاں نہ ہوتے یا اُس کے پاس رہنے کی جگہ مختصر ہوتی ۔ اقوام متحدہ کی اسمبلی کے اندر جانا اور وہ بھی جب کوئی اہم کار روائی ہو رہی ہو ، ایک عام آدمی کا خواب ہوتا ہے ایک ایسا خواب کہ جس کے شرمندہ تعبیر ہونے میں صدیاں بیت جاتی ہیں ۔ میرے بھائی چونکہ گزشتہ 8 سالوں سے UN میں ایمرجنسی سپیشیلسٹ کے عہدے پر کام کر رہے ہیں لہذا اُنہیں اجازت تھی کہ وہ بہ یک وقت 5 مہمان ساتھ لے کر اقوام متحدہ کے 18 ایکڑ قطعہ اراضی پر پھیلے 39 منزلہ عمارت کا بلا جھجک دورہ کرے ۔

مجھے اپنے ملک میں صوبائی یا قومی اسمبلی کے اجلاس دیکھنے کا اتفاق ابھی تک نہیں ہوا البتہ ٹیلی وژن پر جو دیکھا یا سنا ہے وہ تو صرف لعن طعن اور مغلظات کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یہاں کی اسمبلی دیکھ کر معلوم ہوا کہ دنیا کے بڑے لوگ دھیمی آواز میںگفتگو کرتے ہیں ۔ ہال کھچا کھچ بھرا تھا دنیا کے مختلف مستقل ممبر ممالک اور غیر مستقل ممبر ممالک کے مندوبین بیٹھے تھے لیکن خاموشی اتنی کہ آنسو ٹپکنے کی آواز آجائے ۔ ہم نے یہاں 15 منٹ گزارے

Advertisement
Back to top button