صحتکالم نگار

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی اور ہم

شمس الحق قمر

میری ڈائری کے اوراق سے

یہ اگست 2021 کا کوئی دن تھا کہ ہمیں معلوم ہوا کہ میری شریک حیات کےبائیں گردے میں پتھر جمع ہونے کی وجہ سے انفکشن ہوا ہے ۔ الٹرا ساونڈ کے ڈاکٹر نے وقت ضائع کیے بغیر کسی ماہر امراضِ گردہ کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ گردے کے ڈاکٹر نے مزید طبی آزمائش کا مشورہ دیا یوں گردے میں بے شمار پتھروں کی تشخیص کے بعد ہمارے معالج نے کسی اچھے ہسپتال سے اپریشن کروانے کا مشورہ دیا اور ہم نے سیدھا آغا خان ہسپتال کا رخ کیا ۔ ہمیں دوستوں نے مشورہ دیا تھا کہ ایک سے زیادہ ڈاکٹروں سے رائے لی جائے ۔ لہذاہم نے آغا خان ہسپتال میں دو ڈاکٹروں کی رائے لی ۔ رائے لینے کا ہمارا تجربہ انوکھا رہا ۔ اس انوکھے پن کے دو بالکل متضاد پہلو تھے ایک رُخ تاریک جبکہ دوسرا روشن تھا ۔ میں ان دونوں کا ذکر آگے جاکر کروں گا-

 ہمیں اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ صحت کے معاملے میں ایشا اور باالخصوص پا کستان میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی مثال کہیں اور نہیں ملتی کیوں کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں گل ہوتے چراغوں کو اُمید کی کرن نظر آتی ہے ۔ یہاں کے علاج سے زیادہ یہاں کے عملے کا اخلاقی رویہ بہت سوں کے لیے شفا و صحت کا ضامن رہا ہے ۔ ہم نے لوگوں کو کہتے سنا تھا کہ آغا خان ہسپتال میں داخل ہونے والا مریض اس یونیورسٹی کا مہمان خاص ہوتا / ہوتی ہے لیکن اس بار ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یہاں جو بھی مریض کسی بھی عارضے کے ساتھ داخل ہوتا ہے اُسکا تسلی بخش طبی علاج ہوتا ہے ۔ لوگوں کو یہ بھی کہتے سنا تھا کہ یہاں علاج بہت مہنگا ہے لیکن لوگوں کی اس بات میں کوئی وزن نہیں پایا ۔ صفائی کا مثالی معیار ، 99 فیصد سے زیادہ عملے کا اعلی ٰاخلاقی رویہ اس ہسپتال کو پاکستان کے تمام صحت کے مراکز سے ممتازکرتا ہے یہی سہولیات کسی اور جگہ ہوتیں تو شاید اخراجات کے نیچے ہمارے کمزور شانے زندگی بھر کےلیے دب جاتے ۔ یہ میرے دل کی بات ہے کہ ہم آغا خان ہسپتال کے صدر ، سی ای او، ڈاکٹرز ، نرسز اور یہاں تک کہ صفائی کرنے والوں سے لیکر کنٹین میں چائے بنانے والوں تک کی محبتوں کے مقروض ہیں ۔

 کسی کی نیکی اور اچھائی کو عیاں کرنے کےلیے بدی و برائی کی طاقتوں کا ہم رکاب ہونا لازمی ہے ورنہ موازنہ کرنا مشکل ہوگا ۔ ہم یہاں کی خامیوں کے بھی معترف ہیں کہ جن کی وجہ سے بہت سوں کو پرکھنے کا موقع ملا۔ آغا خان ہسپتال میں ایک تلخ تجربہ ہوا جو شاید ذہن پر سوار رہے گا ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہمیں جب یہ خیال آیا کہ ایک سے زیادہ ڈاکٹروں کی رائے لینی ضروری ہے تو ہم پہلے آغاخان یورالوجی کی ایک ڈاکٹر کے پاس گیے لیکن اپنے انتخاب پر ہمیں بے حد شرمندگی ہوئی ہماری نظر میں اس ڈاکٹر کا آغا خان یونیورسٹی جیسے ادارے میں وجود رکھنا اس ادارے کے اعلیٰ حکام پر ایک سوالیہ نشان تھا ۔ میں شاید اس ڈاکٹر کے پیشے اور قابلیت پر سوال نہیں اُٹھا سکتا ہے لیکن ہم نے یہ سنا اور دیکھا ہے کہ یہاں کے ڈاکٹر علاج سے زیادہ اپنے اخلاقی رویے سے مریضوں کی مسیحائی کرتے ہیں اور یہ بھی سنا تھا کہ کسی ڈاکٹر کو ڈاکٹر کی سند دینے سے پہلے اسے اخلاقیات کا وہ درس دیا جاتا ہے اور اُسے اخلاقیات کا امتحان پاس کرنا ہوتا ہے۔ گو کہ ہم نے اس اعلیٰ اخلاقی رویہ کی گہر چھاپ گیٹ میں داخل ہونے سے لیکر اپریشن سے فراغت تک سب کے اندر ہر جگہ دیکھی لیکن صد افسوس کہ مذکورہ ڈاکٹر اس عظیم نعمت سے عاری تھا / تھی ۔ اس نا معقول پیشہ ور سے اپنی صحت کے بارے میں سوال پوچھنا گویا جرم کے مترادف تھا ۔ ہم جب ڈاکٹر کے پاس گیے تو وہ اپنی کرسی پر براجماں تھے/ تھیں ۔ اُن کے چہرے کے شکنوں سے صاف معلوم ہوتا تھا وہ تمام تر خاندانی ناچاقیوں کے ہمراہ آغا خان ہسپتال تشریف ف لائی تھی / تھا ۔ اس ڈاکٹر سے پہلے کسی نے مریضہ کی طبی تاریخ کی تفصیل نہیں پوچھی ۔ ڈاکٹر کی طرز کلام سے ہمیں یہ جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ اُس نے ہمیں اچھوت سمجھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ایک سوال کے جواب میں میری شیریک نے ڈاکٹر سے کہا ” دن میں تین سے چار لیٹر پانی پیتی ہوں ” بولے، ” تمہیں معلوم ہے ایک لیٹر کتنا ہوتا ہے ” اس سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں رہی کہ موصوفہ سکول میں ریاضی میں کتنی کمزور رہی ہوگی ۔ ڈاکٹر کا ایک سوال یا جواب ایسا نہیں تھا کہ جس سے وہ ڈاکٹر معلوم ہو ۔مریضہ نے ڈاکٹر سے پوچھا ” ڈاکٹر میرے گردے میں پتھر ہیں، میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ کیا اپریشن کے بغیر بھی میرے گردے ٹھیک ہو سکتے ہیں ؟” ڈاکٹر کا جواب انتہائی افسوس ناک اور بے حد احمقانہ تھا بولے ” گردے تمہارے ، پتھر تمہارے اور مرضی تمہاری ” اپریشن تو ہوتا رہے گا اگر نہیں کرنا ہے نہ کریں ۔ ڈاکٹر کی یہ بات اُ س کی اپنی ذہنی سطح کے اعتبار سے شاید درست تھی ۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ مریضہ اس ڈاکٹر کو اُمید کی آخری کرن سمجھ کر دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ مسافت کا مشکل سفر طے کرکے پاکستان کے انتہائی شمال سے جنوب تک آئی تھی ۔ ڈاکٹر نے دوسرا سوال پوچھا ” سی ٹی اسکین ساتھ لائی ہو؟ ” مریضہ نے کہا ” ڈاکٹر سٹی اسکین تو میں گلگت چھوڑ آئی ہوں البتہ سٹی اسکین کی رپورٹ میرے پاس ہے اگر حکم ہو تو ادھر ہی سٹی اسکین کروا لیتے ہیں ” اب کی بار ڈاکٹر نے مریضہ کو کچھ اس انداز سے مخاطب کیا گویا کہ مریض کوئی جرم کا ارتکاب کر کے آئی تھی، بولے ” تو پھر تم یہ سارے کچھرے لے کر کیوں آئی ہو ؟” ڈاکٹر کو چار ہزار فیس برائے مشاورت شاید اسی اخلاقی رویے کےلئے ہم نے ادا کی تھی جو کہ تین منٹ کی ملاقات میں اپنی بد تمیزی کے عوض ہم سے بٹورا ۔ ہم اس سے زیادہ بد مزہ گفتگو کے شاید متحمل نہیں ہو سکتے تھے لہذا بڑے بے آبرو ہو کر اُن کے آفس سے نکلنے والے ہی تھے کہ پیچھے سے آواز دی ” پرسوں دوبارہ اپوائنٹمنٹ لے کے آو” یاد رہے کہ یہاں ڈاکٹر سے ایک ملاقات کی فیس کم و بیش 4 ہزار روپے رائج الوقت پاکستانی ہے جوکہ ایک عام آدمی اوسطاً پانچ دنوں میں کما سکتا ہے ۔ اس نامعقول معالج سے ملنے کے بعد ہمارا دل بھر گیا تھا اورہم یہاں سے جلد از جلد گلو خلاضی کا سوچ رہے تھے کہ خیال آیا کہ ہمیں دوسرے ڈاکٹر سے بھی رائے لینی ہے ۔ پر ہم پریشان تھے کہ خدا نخواستہ دوسرے ڈاکٹر کا رویہ بھی ایسا ہی نکلا تو ہم کہاں جائیں ؟۔ ہم نے آپس میں فیصلہ یہ کیا تھا کہ خدا نخواستہ دوسرے ڈاکٹر کا رویہ بھی ایسا ہی نکلا تو ہم کسی ایسے جگہے پر جائیں گے جہاں سہولیات بھلے نہ ہوں لیکن ڈاکٹر کا رویہ دوستانہ ، رحمدلانہ اور پیشہ وارانہ ہو ۔

اس کے بعد ہم جس ڈاکٹر سے ملنے جا رہے تھے اُس کا نام پروفیسر ڈاکٹر عمران خان جلبانی تھا ۔ اُن کے آفس جانے سے پہلے اُن کی ٹیم کے ایک ڈاکٹر نے مریضہ کی مکمل ہسٹری لی جو کہ پہلے ڈاکٹر نے نہیں لی تھی ۔ پھر مریضہ کو ڈاکٹر کے آفس میں بٹھایا گیا ۔ کچھ ہی لمحے بعد ڈاکٹر عمران جلبانی اپنے آفس میں داخل ہوئے ۔ و ہ سر تا پا پرخلوص تبسم کا ایک مکمل مرقع تھے ۔ دفتر میں داخل ہوتے ہوئے اُنہوں نے تسلیمات بجا لانے کے بعد پرتپاک انداز سے مریض کا نام لیکر اُن سے مخاطب ہوئے اور کہا ” حبیبہ مجھے بہت افسوس ہے میں نے آنے میں تاخیر کی ” اُن کی پوری توجہ اپنی مریضہ کی جانب مبذول تھی۔ وہ مریضہ کے لفظ لفظ کو غور سنے جا رہا تھا ۔ اُنہوں نے بھی گلگت والی سٹی اسکین کا پوچھا اور ہم نے وہی جواب دیا جو پہلے والے ڈاکٹر کو دینے کے بعد شرمندہ ہوئے تھے لیکن ڈاکٹر عمران جلبانی کا انداز الگ تھا انہوں نے کہا ” کوئی بات نہیں روپورٹ دکھایئے گا ” ہم نے رپورٹ دکھائی اور ڈاکٹر میری شریک حیات سے یوں مخاطب ہوئے ” مری بہن آپ کے گردے میں پتھر ہیں کھلا آپریشن ہوگا اور ہم کوشش کریں کے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو اور ہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم مریض کو اپریشن کی پیچیدگی بتا دیں لہذا ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کا اپریشن پچیدہ ہے ۔ آپ کے گردے میں 20 فیصد پتھر ایسے مقامات پر موجود ہیں کہ جنکا انخلا اس اپریشن میں ممکن نہیں ہوگا ۔ ہم کوشش کریں گے کہ ہم آپ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکیں "اُنہوں نے اپریشن کے تمام مراحل بتادیے ۔ اُن کی گفتگو میں ملائمت تھی ۔ اُن سے ملنے اور اُ ن کو سننے کے بعد ہم پر ایک روحانی آسودگی کی سی کیفیت طاری ہوئی کیوں کہ اُن کے چہرے کی تمانیت سے ہمیں برابر شفا نظر آرہی تھی ۔ آپ یقین جانیے کہ مریضہ بے حد دلجمعی سے اپریشن کے لیے تیار ہوئی ۔ یہ اپریشن کافی مشکل تھا ۔ ڈاکٹر جلبانی صاحب چار گھنٹے سے زیادہ اپریشن میں مصروف رہے اور اپریشن کے بعد دوران اپریشن حائل تمام پچیدگیوں کا ذکر بھی فرمایا ۔   

      اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ ایک د و الفاظ میں آغا خان ہسپتال کی کمزوریاں بتادیجئے تو میں کہوں گا کہ 10 جنوری 2022 کو جنا بائی فرسٹ فلور میں صبح 10:22 کے ID نمبر167521779 کی ذیل میں مریضہ کی جس ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی ایسے پیشہ ور اس ادارے کے چہرے پر داغ ہیں اور اگر کوئی خوبیاں بیاں کرنے کا سوال پوچھے تو میں مختصراً ڈاکٹر برائے امراض گردہ پروفیسر ڈاکٹر عمران جلبانی ، جنہوں نے میری رفیقہ حیات کے گردوں کا آپریشن کیا اور ڈاکٹر برائے امراض چشم ڈاکٹر عرفان جیوا ،جنہوں نے 2018 میں میری آنکھوں کا آپریشن کیا تھا ،کے اسمائے گرامی لوں گا ۔ یہاں بہت سارے پیشہ ور اچھے ہوں گے لیکن مذکورہ شخصیات سے میرا بالمشافہ ملاقاتیں ہوئی ہیں ۔یہ دو پیشہ ور آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے وہ تابناک ستارے ہیں کہ جن کی پرخلوص مسکراہٹ اور ڈھارس سے نہ صرف مریضوں کو ہمت اور حوصلہ ملتا ہے بلکہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس یونیورسٹی پر گہری مثبت چھاپ کے بھی یہی پیشہ ور ضامن ہیں ۔ ہماری دعا ہے کہ آغا خان ہسپتال کامیابی وکامرانی سے ہمکنار رہے اور اس کے تمام پیشہ ور ہنستے مسکراتے رہیں اور اسی طرح زندگی بانٹتے رہیں ۔

Advertisement
Back to top button