خودکشینیا اضافہ

لون گول تریچ میں دو جوان سال دوشیزاؤں نے دریائے تریچ میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لیں ۔

نفسیاتی مرض نے دو اور جانیں نگل لیں، لون گول میں دو جواں سال دوشیزاؤں نے دریائے تریچ میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لیں۔
سر زمین چترال میں خودکشی کی شرح باقی اضلاع کے نسبت زیادہ تو ہے ہی مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ یہ شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ اور ذیادہ افسوس ناک بات یہ ہے خودکشی کو آج تک نفسیاتی مرض سمجھ کر اس کے علاج کی کوشش ہی نہیں کی گئیں۔ آئے روز کسی نہ کسی علاقے سے خودکشی کی خبر آ جاتی ہے، پھر پتہ چلتا ہے کہ پوسٹمارٹم ہو گیا، تدفین ہو گئی اور قصہ ختم۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ان کیسز کو نفسیاتی مرض سمجھ کر اسٹڈی کی جائیں، وجوہات جاننے کی کوشش کی جائیں، نفسیاتی امراض کے ماہرین کی زیر نگرانی نوجوانوں کی کونسلنگ کی جائیں۔ تب کہیں جاکر خودکشی کی مکمل روک تھام نہ سہی کسی حد تک اس شرح کو کم کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ رونما ہونے والے واقعے کے بابت چمرکھن نے علاقے کے معروف سیاسی شخصیت سابق کونسلر صوبیدار ریٹائرڈ گل احمد سے رابطہ کیا تو انہوں نے خودکشی کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ لڑکیاں چھبیس سالہ مسمات (ر) اور انیس سالہ مسماۃ (گ) اپنے گھر سے لگ بھگ چالیس منٹ پیدل مسافت کے فاصلے پر دریائے تریچ میں چھلانگ لگا کر خود کشی کی ہیں، اور دونوں لڑکیوں کا آپس میں خالہ بھتیجی کا رشتہ ہے۔ افطاری سے کچھ لمحہ قبل دریا کے پاس پتھر پہ چڑھتے ہوئے دور سے لوگوں نے ان کو دیکھ کر آوازیں لگانے کے ساتھ فون کرکے لوگوں کو وہاں بلا لیے لیکن جب تک گاؤں کے لوگ وہاں پہنچتے دونوں لڑکیاں دریا میں ڈوب گئیں تھیں، جن کی لاشیں بعد ازاں تلاش کے بعد سورواہت کے مقام سے ایک کی رات بارہ بجے جب کہ دوسری کی صبح چھ بجے مل گئیں۔
گھر والوں کے مطابق مسماۃ(گ) مسماۃ (ر) کی بڑی بہن کی بیٹی ہے اور ننھیال میں تھی جہاں وہ اپنی خالہ مسماۃ (ر) کے ساتھ افطاری سے قبل دیسی پودینہ (بین) چننے کےلئے جانے کا کہہ کر گھر سے نکل گئیں تھیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک گھر میں نارمل زندگی گزارنے والی دو جواں سال لڑکیوں کی زندگی میں اچانک ایسا کیا طوفان آ گیا کہ دونوں حیات سے موت کی طرف چل پڑیں، نارمل زندگی گزارتی ہوئی دو لڑکیاں افطاری کی تیاری کرتے کرتے اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہیں تو یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، اسے ایک نفسیاتی مرض کے طور پر دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button