اپر چترالخبریںسماجیسیاست

لوکل گورنمنٹ ، اختیارات و فرائض اور عوامی تواقعات

سید شہاب الدین

 

ساڑھے تین سال کے عرصے کے بعد27 مارچ 2022 کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 4 فروری 2022 کو ایک مراسلے میں موسمی حالات کے پیش نظر روک دی۔ الیکشن کے گہما گہمی شروع ہوئی تھی، سیاسی گٹھ جوڑ اور مختلیف حربے کا استعمال عروج پر تھا۔
مقامی حکومتوں کے قیام سے جمہوریت کے بنیادی تربیت گاہیں پھر سے رونق ہونگی، اور بلدیاتی نمائندگان کے زریعے اختیارات نچلی درجے منتقلی کا عمل شروع ہوگا۔ بلدیاتی نظام اچھے طرز حکمرانی کے زریعے عام شہریوں کی زندگی میں بہتر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔
سینٹیشن، صحت، تعلیم ، مقامی زراعت ،ماحولیات، صفائی اور معاشرتی ترقی کیساتھ منتخب نمائندگان کے استعداد اور صلاحیت کو بڑھانے کے لئے مقامی حکومتوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے، اور یہ آئینی طور پر مقامی اداروں کا دائرہ کار بھی ہیں۔
2001 اور 2013 کے لوکل گورنمنٹ سسٹم کے مقابلے میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 میں فرائض اور اختیارات میں بہت اضافی تبدیلی نہیں کی گئی ہیں، البتہ کونسل کے ہیڈ کو ناظم کی جگہ چیرمین کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس سے خواتین کے لئے کام کرنے والے ادارے اور ناقدین یہ تاثر دے رہے ہیں، کہ کے پی کے میں قائم مقامی حکومتوں میں خواتین کے لئے بڑے عہدے پر جگہ تعین نہیں ہے ، چیئر مین کی جگہ چیئرپرسن مناسب لفظ ہو سکتا ہے۔
نئے آئینی ترمیم میں ضلعی نظام حکومت کو ختم کرکے سٹی لوکل گورنمنٹ، تحصیل کونسل، شہری علاقوں ، اور دیہات میں ویلج کونسل کے علاوہ نیبر ہڈ کونسل شامل ہیں، مئیر سٹی لوکل گورنمٹ کا سربراہ، جبکہ تحصیل ویلج، نیبر ہڈ کونسل کے سربراہ چیئرمین کہلائے گا۔
چترال لوئیر میں 2 ،جبکہ اپر چترال میں کوئی نیبر ہڈ کونسل نہیں ہے،ہر ویلج کونسل میں کل 6 ممبران ہونگے،بصورت دیگر حلقے میں اقلیتی ابادی ہونے کی صورت میں اقلیتی سیٹ کا اضافہ ہوگا، سب سے زیادہ ووٹ لینے والا کونسل کا سربراہ چیئرمین کہلائے گا، 2 جنرل کونسلرز، ایک کسان ،ایک یوتھ(21 سے 30 سال کے درمیان) اور ایک خاتوں کی نشست ہوگی۔
ویلج اور نیبر ہڈ لیول کے لئے فارم فیس 5ہزار، جبکہ مئیر، اور تحصیل چیئرمین کے لئے فیس پچاس ہزار روپے رکھی گئی ہیں۔
تحصیل چیئرمین کا انتخاب براہ راست، جبکہ ہر ویلج کونسل میں سب زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین اور ممبر تحصیل کونسل ہونگے۔ جبکہ تحصیل کونسل میں دوسرے ممبران یوتھ، خواتین نشست کے لئے بھی ووٹوں کے اکثریت کے تناسب کو مدنظر رکھ جائیگا۔
(جاری ہے)

Advertisement
Back to top button