سیاستلوئیر چترال

بلدیاتی نظام میں نقائص

شیر ولی خان اسیر

 

ویلج اور نیبرہڈ کونسلیں جمہوریت کی تربیت گاہ ہوتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بلدیاتی نظام کی جڑیں مضبوط ہوتیں تو آج ملک کی سیاست کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ہمارے وفاقی نظام حکومت نے اس بنیادی درسگاہ کو پنپنے نہیں دیا۔ جن جن فوجی حکمرانوں نے اس نظام کو متعارف کرانا چاہا اسے اپنے اقتدار کو طول دینے کا حربہ قرار دے کر مطعون کیا گیا۔ پچلے جمہوری دنوں کے بلدیاتی اداروں کو بامر مجبوری برائے نام بحال کیا گیا تھا۔ فنڈز کی فراہمی بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف تھی۔ ان برائے نام کونسلوں میں جمہوری رویوں کی تربیت نہ ہوسکی۔ ان کی کمزور حیثیت تعلیم یافتہ اور تجربہ کار باشعور لوگوں کے آگے آنے کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ویلج کونسلوں کے ناظمین بہت معمولی علم و تجربے کے حامل لوگوں میں سے منتخب ہوئے جو ویلج سیکرٹریوں کے دست نگر ہو کر اپنا ٹینیور پورا کیا۔

 اس نظام میں دوسری غلطی یہ تھی اور ہے کہ یہ بنیادی جمہوری ادارے غیر جماعتی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ کونسل کے اندر حزب اختلاف کا وجود نہیں ہوتا۔ جس کونسل یا اسمبلی میں حزبِ اختلاف نہ ہو وہ شاہی دربار بن جاتی ہے۔ ایک چھوٹی سی بادشاہت وجود میں آتی ہے۔ بادشاہت کے اندر جمہوریت کا وجود ڈھونڈھنا حماقت ہے۔

  لہذا بلدیاتی انتخابات بھی پارٹی بنیاد پر ہونے چاہیں تاکہ حزب اختلاف وجود میں آئے جو حزب اقتدار کی من مانی روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ تب کہیں جاکر ان دیہی/ نیبرہڈ کونسلوں میں جمہوری رویوں کی تربیت ہوسکے گی ورنہ یہ کونسل فائدے کی بجائے نقصاندہ ثابت ہوں گی۔

Advertisement
Back to top button