اپر چترالتاریخ اور ادبخبریںکالم نگار

یک شب یاد گار

 

شیر ولی خان اسیر

 

20 دسمبر  2021 کو انجمن ترقی کھوار نے گل مراد خان حسرت مرحوم کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ انجمن کے صدر شہزادہ تنویر الملک صاحب نے اس ناچیز کو بحیثیت خاص مہمان تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی مجھے ان کی دعوت بہر قیمت بصد شکریہ قبول کرنا تھی۔ مختلف سماجی، علمی، ادبی اور ثقافتی تقریبات میں کسی کو صدارت اور مہمان خصوصی کی کرسی پیش کرنا بہت بڑی عزت افزائی ہے البتہ میں اس معاملے میں ذرا ناشکرا واقع ہوا ہوں۔ میری اس ناشکری کی وجہ یہ ہے کہ مجھے یہ کام کافی مشکل لگتا ہے۔ دو تین گھنٹے درجنوں مقررین کو توجہ سے سننا اور پھر جب محفل بوریت کا شکار ہوتی ہے تو مہمان خصوصی اور صدر محفل کو اظہار خیال کے لیے بلایا جاتا ہے۔ انہیں نہ صرف شرکاء کی بوریت دور کرکے ان کی توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے بلکہ ان فاضل مقررین کی آراء پر بھی رائےدینی ہوتی ہے۔ ایک طرح سے اسکول کے ایک طالب علم کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ چپ چاپ استاد کا لکچر سنو، آخر میں ہم جماعت ساتھیوں کے مجمع کے سامنے استاد کے سوالات کے جوابات پیش کرو۔ طالب العلم کی غلطی در گزر کے قابل ہوتی ہے لیکن کسی تقریب کے صدر مجلس اور مہمان کی معمولی لغزش بھی قابل گرفت ہوتی ہے۔ پھر ان دونوں حالتوں میں سامعین کی ذہنی اور علمی سطحوں میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
دوسری مشکل اس عزت افزائی کی یہ ہے کہ چند ایک بے فرصت اور بے قرار سامعین ایک ایک ہوکر کھسک جاتے ہیں۔ ان سامعین کی یہ حرکت صدر اور مہمانان تقریب اور منتظمین کے لیے باعث افسوس ہوتی ہے۔ یہ محفل ویسے بھی سوگوار تھی۔ ہر دوست کا چہرہ افسردہ تھا۔ میں تو درد و غم میں ڈوبا ہوا مکمل خالی الذہن تھا کیونکہ حسرت کی وفات ہمارے لیے شدید صدمے کا باعث بنی تھی اور صدمے کی حالت میں ذہن ماؤف سا ہو جاتا ہے۔ بہر حال تعزیتی پروگرام اچھا رہا۔ مقررین نے حسرت کی یادوں اور خدمات کی تفصیل سناکر سامعین کو پورے تین گھنٹے اپنی اپنی نشستوں پر ہمہ تن گوش رکھا۔ البتہ چند "حضرات” اپنا چہرہ دکھانے کے بعد مزید "وقت برباد کرنا” اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے منہ اٹھائے چلے گئے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس مصروف دور میں ہر آدمی کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں ایسی حالت میں دیر سے تقریب گاہ میں پہنچنے اور محفل کی برخاست ہونے سے قبل اپنی نشست چھوڑنے کو مہذبانہ رویہ خیال نہیں کیا جا سکتا ۔ اس سے محفل میں عدم شرکت ہی بہتر ہے۔

اسی شام کو اس ناچیز اور جناب مکرم شاہ صاحب کے اعزاز میں جناب محمد عرفان عرفان کے دولت کدے میں دعوت اور ایک غیر رسمی نشست کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ غالباََ پچھلے سال شہزادہ تنویر صاحب اور محترم ڈاکٹر فیضی صاحب نے اس ناچیز کے ساتھ ایک نشست کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بدقسمتی سے موقع نہ ملا۔ در اصل کرونا کی وباء سے ہم سن رسیدہ لوگ زیادہ خوفزدہ تھے اور ہیں۔

عرفان صاحب ایک علمی خاندان کے چشم و چراغ ایک ہمہ صفت انسان ہیں۔ ان کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں۔ تجربہ کار اور استاد شاعر، پائے کے ادیب، مورخ، محقق اور انجمن ترقی کھوار کےایک دیرینہ خادم ہیں۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔بحثییت انسان شرافت، توضع، انکساری اور خلوص و محبت کے پیکر ہیں۔ عرفان صاحب کے فرزند ارجمند رشید عرفان سے جب ملاقات ہوئی تو دل باغ باغ ہوگیا کیونکہ رشید کو میں نے اپنے بابا کی سیرت کا وارث پایا۔ اللہ پاک اس چمن ادب و ثقافت کو پھلتا پھولتا رکھے!
عرفان صاحب کے مہمان خانے میں روایتی انگیٹھی میں آگ بھڑک رہی تھی۔ روایتی فرشی نشست تھی۔نرم و گداز گدیوں کے پیچھے گاؤ تکیے لگے تھے۔ کمرہ گرم تھا۔ میں اور محمد یوسف شہزاد سب سے پہلے حاضر میزبان خانہ ہوئے تھے۔ عرفان صاحب، چیرمین شوکت علی صاحب اور برخوردارم رشید عرفان کو منتظر پایا۔ شام کی نماز کے بعد جناب مکرم شاہ ، شہزادہ تنویرالملک , میتار ژاؤ شاہ جہاں ، افضل اللہ افضل ، ظفراللہ پرواز اور پروفیسر ظہور الحق دانش صاحباں نے بھی محفل کو رونق بخشا۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب کو زکام کی شکایت تھی اس لیے محفل میں شریک نہ ہوسکے۔ ان کی عدم موجودگی کا ہم سب کو شدید احساس ہوا۔ کیوں نہ ہو جب چترال میں دوستوں کی کوئی خاص نشست ہو اور فیضی صاحب موجود نہ ہو تو محفل ادھوری اور پھیکی لگتی ہے۔ فیضی صاحب محفلوں کی روح رواں ہوتے رہے ہیں۔ محفل کی حلاوت اور ملاحت ان کے نام قدم سے آباد اور پرشباب رہتی ہے۔ مکرم شاہ صاحب کی تشریف آوری نے ان کے قدر دان شاگرد کی کمی کا کسی حد ازالہ کر دیا۔ مکرم شاہ صاحب بھی ادبی اور ثقافتی تقریبات کی جان ہوا کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھے دوست کبھی بھی محفل کی طوالت کی وجہ سے اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کے علمی خزانے میں وہ درنایاب ہوتے ہیں کہ جنہیں چنتے چنتے کئی راتیں بے خبری میں گزر سکتی ہیں۔
افضل اللہ افضل صاحب چترال کے منجھے ہوئے مقبول غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی غزلوں میں دنیا جہاں کا سوز و گداز ہوتا ہے۔ گلوکار حضرات بڑے شوق سے ان کی غزلیں گاتے ہیں۔ افضل صاحب انجمن ترقی کھوار کے پرانے ممبروں میں سے ہیں اور کھوار اور انجمن کے لیے ان کی خدمات قابل آفرین ہیں۔
ہمارے لنگوٹیا یار محمد یوسف شہزاد کی ذات بھی محتاج تعارف نہیں۔ شہزاد صاحب ساڑھے چار دھائیوں سے کھوار کے چمن کو اپنے خون سے سینچتا آرہا ہے۔ کھوار زبان و ادب کی تاریخ ان کے بغیر ادھوری نظر آئے گی۔ اعلے پایے کے ادیب ہیں۔یاروں کے یار ہیں۔ ان کے ساتھ دوستی بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی فیضی صاحب کے ساتھ دوستی رہی ہے۔
ظفر اللہ پرواز صاحب کھوار کے پہلے ناول نگار اور تجربہ کار سخنور ہیں۔ کھوار ادب اور انجمن کے ساتھ ان کی رفاقت طویل زمانے سے ہے۔ بے باک شعرگو اور سیاسی ناقد ہیں۔ اپنے اشعار کے ذریعے معاشرے کی برائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ جوان لکھاری شاعر اور جامعہ چترال میں فرنگی زبان کے قابل استاد، ظہور الحق دانش کا شمار جوان شعراء اور ادباء کی صف اول میں ہوتا ہے۔ شعرو ادب، سخںوری اور اپنی ثقافت سے پیار و محبت ان کو ان کے بابا مرحوم مولا نگاہ نگاہ سے ملی ہے۔ چترال کے مشہور و معروف ستھار نواز شوکت علی بھی فن کی دنیا کے اساتذہ میں سے ہیں۔ شریف النفس، قدردان، خاکسار شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کا مختصر تذکرہ میری تصنیف ” چترالی موسیقی، آلات موسیقی اور فنکار” (اشاعت2001ء) درج ہے۔ آج شوکت علی المعروف چیرمین فن ستھار نوازی میں کمال حاصل کر چکے ہیں۔ ان کو یاد ساری کلاسک دھنوں کی ریکارڈنگ بہت ضروری ہے۔
شہزادہ تنویرالملک صاحب ایک کثیرالجہت شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنے والد محترم شہزادہ فخر الملک فخر کے درست معنوں میں ادبی وارث ہیں۔ ایک بہترین محقق، مورخ، ادیب، شاعر، وکیل اور کیا کیا نہیں ہیں۔ شرافت اور انکساری کا مجسمہ ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں سے انجمن ترقی کھوار کی صدارت پر فائز ہیں اور بے لاگ خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کئی تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں ڈاکٹر فیضی کے بعد سب سے زیادہ عرصہ انجمن کے صدر کی حیثیت سے پرخلوص خدمت کرنے والے شہزادہ تنویر صاحب فیضی صاحب جیسے متحرک اور نہ تھکنے والے شخصیت ہیں۔ اللہ پاک انہیں لمبی پرسکون زندگی سے نوازے!

شام کے کھانے سے پہلے جو مقامی سوپ پیش کیا گیا اسے ہم کڑی کہتے ہیں۔ مجھے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اتنی لذیذ کڑی کھانے کا موقع ملا۔اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ اس خاکسار کے گھر میں اچھی کڑی نہیں پکتی (تان کپھوڑوت آف گوم مہ کیانی کوس راردو) یا یہ کہ یہ یارخونک کڑی ہی نہیں جانتا۔ عرفان صاحب کے طعام گھر سے جو کڑی کھائی اس کا ذائقہ تا آخر دم زیست منہ میں رہے گا۔ اس بیٹی/ بہن کے لیے انعام بھیجنا بھول گیا جس نے یہ کڑی بنائی تھی۔ یہ میری عام روایت ہے کہ جس بہو بیٹی، ماں بہن نے اچھی چترالی خوراک پکائی ہو اسے چھوٹا موٹا انعام دے کر اس کی قابلیت کا اعتراف کرتا ہوں۔ عرفان صاحب کے گھر کی اس محترم بہن بیٹی کا یہ انعام مجھ پر ادھار رہا۔ زندگی رہی تو ضرور چکا دوں گا۔

جب کھانے کا دسترخوان سجا تو ایسا لگا گویا عرفان صاحب نے فوج کی پوری کمپنی کے لیے کھانا تیار کروائے ہوں۔ سالم مرغی اور سالم بکرا/ دنبہ دسترخون پر چنتے تو دیکھا تھا۔ جوانی میں خوب کھاتے بھی رہے ہیں مگر سالم ٹرکی کھانے کا بھی یہ پہلا موقع تھا۔ اللہ پاک عرفان صاحب کے دسترخون کو کشادہ ہی رکھے! انتہائی پر تکلف اور پرذائقہ چترالی کھانا ہمیں کھلایا گیا اس لیے میں نے اپنی حیثیت سے زیادہ کھایا تھا۔
رات کی نشست میں عام غیر رسمی گفتگو کے علاوہ ہم دو کبیرسن بھائیوں سے کئی سوالات بھی پوچھے گئے۔ ان کا ہم نے کیسا جواب دیا وہ پوچھنے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ افضل اللہ افضل صاحب سےدو غزلیں ہم نے سنیں اور داد دی۔ دو بند آپ بھی پڑھیے:

متے معلوم کی بسیر ہݰ کیہ پتہ
مہ سورا کیچہ الزام نویشی شیر
سوال جواب ہتیرا تان لوا پاریر
تہ بزمہ زلو چے بام نویشی شیر
( کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کیا معلوم کہ (اس کتاب یعنی عمل نامہ) میں مجھ پر کونسا الزام لکھا گیا ہے۔
سوال جواب اس وقت (حساب کتاب کے وقت) خود بولنے لگے گا کیونکہ تیری محفل میں دہیمی اور اونچی (اس سے سزا و جزا کی لکھت بھی مراد لے سکتے ہیں) آوازیں (پہلے ہی سے) مرقوم ہیں۔ یہ صوفیانہ کلام ہے۔
چترال کے نامور ستھار نواز شوکت علی صاحب سے دو چار قدیم کلاسک دھنیں ستھار پر سن کر لطف سماعت سے بہرہ ور ہوئے۔ رات گیارہ بجے یہ پرلطف محفل برخاست ہوئی۔ ہم نے عرفان صاحب کا شکریہ اور گھر والوں کے لیے برکت کی دعائیں دیتے ہوئے میزبان سے رخصت لےلی۔

Advertisement
Back to top button