سفر کہانیکالم نگار

وادی ہنزہ نگر کی ایک جھلک

شیر ولی خان اسیر

 

ایک مدت سے دل میں شوق مچلتا رہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح اپنے پیارے ملک کی ایک پیاری سی وادی کو بچشم خود دیکھ سکوں۔ تحریر و تقریر میں بہت کچھ سنا تھا مگر ” شنیدہ کئے بود مانند دیدہ”. دوستوں کی محفلوں میں جب بھی ذکر سیر و سیاحت چھڑتا تو مجھے شرمندگی سی ہوتی کہ میں پاکستان کے شمالی پہاڑی وادیوں میں سے ایک وادی کا باسی ہوتے ہوئے بھی اپنے پڑوس میں واقع ملک کی خوبصورت ترین وادی کو دیکھنے نہیں پایا ہے۔ ارادہ کرتا رہا لیکن آب و دانہ وہاں کا شاید موخر تھا۔ کئی دفعہ گلگت آنے جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک مرتبہ سکردو، گھانچھے اور استور دیکھنے کا موقع اے کے آر ایس پی نے فراہم کیا تھا لیکن نگر اور ہنزہ کی جنت نظیر وادی کے اندر جھانکنا نصیب نہیں ہوا تھا۔
پھر اللہ پاک نے میری بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کو گلگت میں خدمات کا موقع دیا اور اس کے وسیلے سے ہمیں گلگت آنے کا ایک بار پھر سے موقع ملا۔ پہلے سے طے کیا کہ اس بار اضلاع نگر اور ہنزہ ضرور دیکھ لوں گا۔ گلگت آتے وقت آغا خان ہیلتھ سروسز پاکستان گلگت اور چترال کے ذمے داروں نے گاڑی کی سہولت فراہم کی تھی اس لیے اپنی گاڑی ساتھ نہیں تھی۔ دخترم ڈاکٹر زبیدہ اور صاحب کریم خان گاڑی خریدنے کی دوڑ دھوپ میں ہلکان ہو رہے تھے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتی گئی۔ برخوردار عزیزم شمس الحق قمر نے اپنی گاڑی ہمیں دے رکھی تھی لیکن یہ زیادہ سے زیادہ پانج بندوں کو اٹھا سکتی تھی جب کہ ہم سات تھے جو سب کے سب ہنزہ جانا چاہتے تھے۔ ںیگم صاحبہ کہتی رہی کہ ہم اس گاڑی میں آسکتے ہیں لیکن میں اس چھوٹی سی نازک کار پر ظلم کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ہنزہ دیکھنے کی آرزو ناتمام ہی رہی۔
جب بچوں نے بڑی گاڑی خریدی اور 28 اگست کو صاحب کریم خان اسے لے کر گلگت پہنچا تو اگلی صبح ہم نے ہنزہ جانے کا پروگرام بنانے میں ذرا بھر تاخیر نہیں کی۔ یہ خبر میں نے از راہ اطلاع شمس الحق قمر کو پہنچائی تو اس نے اپنے لائق خدمت کا کہا۔ میں نے کہا، ‘بیٹا! جیتے رہو! آپ آج ہی غذر کا چار پانج روزہ اسکول معائنہ دورہ کر آئے ہو ورنہ آپ کو ساتھ چلنے کو کہتا’۔ مجھے معلوم تھا کہ گرمی کی تعطیلات کے بعد اسکولوں کے کھلنے کے ساتھ اغخان ایجوکیشن سروسز کے سہل کار ان کا معائنہ بڑی سخت معائنہ شیڈول کے تحت کرتے ہیں۔ پھر انسپکشن رپورٹس تیار کرنے ہوتے ہیں۔ میں خود اس قسم کی ڈیوٹیوں میں شدید تھک جانے کا تجربہ رکھتا ہوں۔ شمس القمر چونکہ آغا خان ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولوں کی نصابی سرگرمیوں کے نگران ہیں اور ایک فرض شناس تعلیمی منیجر کی حیثیت سے اپنی ڈیوٹی انتہائی پابندی سے ادا کرتے رہے ہیں، اس لیے ان کو مزید تناؤ کا شکار کرنا میرے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ ملازمت سے رخصتی کے آج بارہ سال بعد بھی میں اپنے سارے متعلقین کو تاکید کرتا رہتا ہوں کہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی بھی کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں اور ایک منٹ وقت کی بھی خیانت نہ ہو۔ فرائض منصبی کی ادائیگی میں ہمیشہ مستعد رہیں۔ ایسا آدمی اپنے ایک فرض شناس برخوردار کو ڈیوٹی کے دوران اپنی خدمت کے سلسلے میں پریشان کرنا کیونکر چاہے گا؟
رات ساڑھے دس بجے جب قمر کا فون آیا تو میں پریشان سا ہوگیا کیونکہ رات کےاس وقت میں بستر پر دراز نیم غنودگی کے عالم ہوتا ہوں ۔کہنے لگے، ‘سر! میرے بہت ہی اچھا شاگرد ہنزہ کے ڈی سی ہیں۔ میں نے انہیں فون کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ ان کے ہاں یا تو چاشت کی چائے پئیں گے یا دوپہر کا کھانا کھائیں گے’۔ میں نے کہا، ‘ عزیزم! آپ نے چھٹی کے دن ایک مصروف افسر کے آرام میں خلل ڈال دیا۔ میں کسی کو زحمت دینا پسند نہیں کرتا۔ اب جب کہ آپ لوگوں نے فیصلہ کیا ہی ہے تو ہمیں اپنے ایک ہونہار شاگرد کے ہونہار شاگرد سے مل کر بڑی خوشی حاصل ہوگی اور روحانی مسرت نصیب ہوگی۔ ان کے ہاں چائے ضرور پئیں گے چاہے انہیں زحمت ہی کیوں نہ ہو’
بہر حال صبح ساڑھے آٹھ بجے گلگت سے نکلے۔ میرے ساتھ میری شریک زندگی بیگم صاحبہ، ڈاکٹر زبیدہ، صاحب کریم ، لاڈلا ہادی محمد غوث، ہماری بھتیجی نصرت نگار اور چھوٹی بیٹی ڈاکٹر رئیسہ خان اسیر شریک سفر ہوئے۔دریائے ہنزہ کی بائین طرف قراقرم ہائی وے پر کوئی پچیس کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ہم ضلع نگر میں داخل ہوئے۔ گلگت کا غالباََ سب سے وسیع و عریض گاؤں دنیور، سلطان آباد اور نومل بھی گنجان آباد، پھلدار درختوں سے بھرے ہوئے قابل دید گاؤں ہیں۔ گلگت سے جاتے ہوئےنگر کا پہلا گاؤں اسکندراباد آتا ہے جبکہ شمال مغرب میں دریائے ہنزہ کے اس پار چھلت پہلا گاؤں ہے ۔ آگے جعفر آباد،نلت،تھول، قاسم آباد،خانہ اباد، غلمت، پسین اور نگر خاص واقع ہیں۔ یہ سارے چھوٹے بڑے خوبصورت گاؤں ہیں۔
چند سال پہلے تک نگر اور ہنزہ ایک ضلعے کے اندر آتے تھے۔ اب یہ دو اضلاع ہیں۔ ضلع گلگت کے اختتام سے نگر کا ضلع شروع ہوتا ہے اور ناصر آباد پر اس کا شمال مغربی حصہ اختتام پذیر ہوتا ہے البتہ جنوب مغربی حصہ ہنزہ کے علی آباد کے آخری حصے کے سامنے تک پھیلا ہوا ہے۔ مجموعی طور پر ضلع نگر کا زیادہ حصہ تنگ وادی کے اطراف میں ڈھلانوں پر مشتمل ہے۔ دونوں اطراف کے پہاڑ مکمل طور پر نباتات سے خالی ہیں البتہ ان کے دامن میں جتنی قابل کاشت اور پودے اگانے کے قابل زمینیں ہیں انہیں شاداب پائی۔ مقامی لوگوں نے انہیں آباد کرکے ان میں کشش ڈالدی ہے۔ جنوب مشرق میں خاص کرکے رکاپوشی کی برف پوش چوٹی سیاحوں کے لیے بہت ہی جاذب نظر ہے۔
ہماری گاڑی مناسب رفتار سے کبھی سرسبزوشاداب بستیوں کے درمیان سے اور کبھی خشک ننگی گھاٹیوں کے بیچ سے گزرتی رہی اور ہم نئے مقامات کا حسن اپنے دماغ کے پردے پر منقش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ناصر آباد پل سے گزر کر ضلع ہنزہ کے پہلے گاؤں ناصر آباد میں داخل ہوگئے اور سامنے نگر کے وسیع و عریض گاؤں کا نظارہ کرتے کرتے مرتضٰی آباد، حسن آباد، اور پھر علی آباد جو ہنزہ کا صدر مقام بھی ہے، سے ہوتے ہوئے گیارہ بجے ڈی سی ہنزہ کی رہائش گاہ پہنچ گئے تو جوان و برنا ڈپٹی کمشنر کمال الدین صاحب کو اپنا منتظر پایا۔ اونچے سرو قامت حسین جوان، شائستگی کی تصویر بنے، ہاتھ سینے پر رکھے دہیمے لہجے میں ہمیں خوش آمدید کہا اور بڑے احترام کے ساتھ اپنے مہمان خانے پہنچا دیا۔ ابھی مختصر تعارفی کلمے ادا کر پائے تھے کہ ان کے موبائل کی گھنٹی بول اٹھی۔ دوسری طرف جو کوئی بھی تھا کمال الدین صاحب نے ان سے کہا "پروگرام شروع کراو، میں پہنچ جاؤں گا” اب مجھے اندازہ ہوگیا کہ میں ضلعے کے افسر اعلے کے کسی ضروری کام کی انجام دہی میں مخل ہوگیا ہوں۔
جب اس نے فون بند کیا تو میری استفساری آنکھوں کی طرف متوجہ ہوکر بتایا، ” آج ایک پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب منعقد ہونی تھی جس کا افتتاح جی بی حکومت کے وزیر انجام دیں گے”. میں نے کہا، ” برخوردار! ہماری طرف سے آپ کو مکمل اجازت ہے۔ آپ معزز مہمان کا استقبال کریں۔ ہم چائے پی کر آگے جائیں گے۔ آپ سے ملاقات ہوگئی”۔ مجھے ایک ایسے افسر سے تفصیلی گفتگو کا موقع ملتے ملتے ہاتھ سے نکل گیا جو میرے بہت ہی پیارے اور انتہائی تابعدار شاگرد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا اور سرکار میں بڑے عہدے پر براجمان تھا۔ (جاری ہے)

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button