تاریخ اور ادبکالم نگار

ظفر اللہ پرواز کی باتوں سے دودھ اور پنیر کی سی مہک آتی ہے۔

فرنود عالم

 

ظفراللہ پرواز صاحب کی باتوں سے دودھ پنیر کی سی مہک آتی ہے۔ کھوار زبان کے سانچوں میں ڈھال کر جب وہ اُردو بولتے ہیں تو لگتا ہے سارا چترال سمٹ کر ان کی ذات میں آتر آیا ہے۔ کنچی آنکھوں والا چترال بول رہا ہے اور آپ سُن رہے ہیں۔

پرواز صاحب کھوار زبان کے پہلے ناول نگار ہیں۔ پہلے ناول پر ہی انہوں نے قلم توڑ دیا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے گئے وقتوں کا ایک گاوں بسایا ہے، جہاں سے چترال کی تہذیب و ثقافت کی دو صدیوں کو گزرتے ہوئے دکھایا ہے۔   

کہنے والوں کا کہنا ہے کہ چترال کا دو سو سالہ روزمرہ جاننے کے لیے یہ کافی ہوگا کہ آپ پرواز صاحب کا ناول "انگریستانو” پڑھ لیں۔

مگر کیسے پڑھیں، انگریستانو کا تو اُردو ترجمہ ہی نہیں ہے۔ ہنر مند اس بھاری پتھر کو ہاتھ لگاتے ہیں مگر یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ سب ہوجائے گا، مفہوم منتقل نہیں ہوپائے گا۔

پچھلی بار فخر عالم کے ساتھ مل کر انہیں بونی میں ڈھونڈا، نہیں ملے۔ اِس بار رات بہت دیر کا سویا صبح دس بجے جاگا تو فخر عالم سرہانے کھڑا تھا۔ آواز آئی 

"دادا ! ظفر پرواز صاحب آئے ہوئے ہیں، ایک گھنٹے سے باہر آپ کا انتظار کر رہے ہیں”۔ ارے؟

 وجود میں یکایک ایمرجنسیاں دوڑ گئیں۔ بھاگم بھاگ منہ پہ چھینٹے مارے اور پائیں باغ پہنچ گیا۔ ایک گھنٹہ چُپ چاپ اُنہیں سُنا، لگا کہ انگریستانو کا ترجمہ مفہوم سمیت پڑھ لیا۔ ان کی گفتگو پورا ترجمہ ہے۔ ان کا لہجہ مکمل مفہوم ہے۔ 

پرواز صاحب کے استعارے محبتوں، باغوں، پھول، تتلیوں، رنگوں، خوشبووں، تھاپ، دھُنوں، نغموں، ہواوں، لہروں،روانیوں، چراغوں، روشنیوں، آبشاروں، رقص اور مسکراہٹوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ان کی تشبیہات میں وحشتوں کا کوئی گزر نہیں ہے۔ 

دھنک کے سارے رنگ لے کر اب وہ شاعری کی طرف آگئے ہیں۔ 

اُن کے ایک شعر میں مجھے لال گلابی گالوں والا ایک بچہ باغ میں کھیلتا ہوا نظر آیا۔ ایک موقع پر وہ مقامی پرندے سے کہتا ہے 

سنو! میں تمہارے لیے اخروٹ کی چھوٹی چھوٹی کٹوریوں میں گھی لایا کروں گا۔ اپنی ٹوپی میں مکئی کے دانے بھی چُھپاکر لایا کروں گا۔

تم بس اتنا کیا کرو کہ جب سِتار کی دھُنیں سنائی دیا کریں تو ہوا میں کچھ دیر ٹھہرجایا کرو، اور رقص کیا کرو۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button