کالم نگار

میری بے ایمانیاں

بریگیڈیئر بشیر آرائیں

کمانڈنٹ چترال اسکاوٹس کرنل مراد خان نیر وہ آرمی افیسر تھا جس کی ایمانداری ۔ حب الوطنی ۔ سپاہیانہ آن بان کی گواہی مخالفین بھی دیتے تھے ۔ میرا انکے ساتھ پہلا ماہ تھا ۔ ایک دن مجھے آفس میں بلایا اور کہنے لگے بشیر دو بے ایمانیاں کرنی ہیں اور تمہارا ساتھ چاہیے ۔ میں پریشان تھا کہ کیا جواب دوں ۔ 

کہنے لگے پہلی یہ کہ ارندو میں جو نائب صوبیدار شہید ہوا ہے اسکا بیٹا پندرہ سال کا ہے ۔ ان پڑھ ہے تم اس کی عمر 18 سال لکھ کر میڈیکل فٹنس دے دو ۔ ہم اسے سپاہی بھرتی کر لیتے ہیں بعد میں دیکھا جائیگا فی الحال شہید کا خاندان پلتا رہےگا ۔ 

دوسری یہ کہ ایک یتیم بچہ ہے وہ چترال سے بارہویں کلاس میں اول آیا ہے ۔ گھر چلانے کو ایک ہوٹل میں نوکری کرتا ہے ۔ میڈیکل کالیج میں نام آگیا ہے مگر جا نہیں سکتا۔ خرچے کے پیسے نہیں ہیں نہ اپنے لیے نہ گھر کے لیے ۔ اسے نرسنگ سپاہی بھرتی کرتے ہیں ۔ مگر ڈیوٹی تمہارے پاس نہیں کریگا ۔ ہیڈ کوارٹر بالا حصار میں اپنی ریر پارٹی میں بھیج دیں گے ۔ میڈکل کالیج جاتا رہے گا ۔ کھانا اور رہائش یونٹ میں مفت ہو جائیگی اور اسکی تنخواہ میں اس کے اپنے اور گھر والوں کے خرچے چل جائیں گے ۔ ایم بی بی ایس ہونے تک زندہ رہے تو اسکو کسی معمولی سی غلطی پر نوکری سے فارغ کردیں گے ۔ میں نے دونوں بےایمانیوں پر یس سر کہہ دیا ۔ دوسرے دن دونوں کے میڈیکل فٹنس سرٹیفیکیٹ میں نے دے دیے آگے کیا ہوا میں نے کبھی نہ پوچھا ۔ نہ ضرورت تھی ۔

پھر میں پنوں عاقل آگیا ۔ چترال اسکاوٹس میں میری دوسری دفعہ پوسٹنگ ہو گئی ۔ بہت سی پرانی باتیں یاد ہی نہ تھیں ۔ 1989 میں کرنل مراد خان کی خودکشی پر افغان کیمپ کا ایک ڈاکٹر مجھے ملنے آیا تو ہاتھ ملا کر میرے ہاتھ پر بوسہ دیا اور روتے ہوئے کہنے لگا سر میں نرسنگ سپاہی قطب ولی ہوں جس کو کرنل مراد نے آپ کی مدد سے ڈاکٹر بنا دیا ۔ آپکے آنے سے چھ ماہ پہلے جب میرا ایم بی بی ایس مکمل ہوا تو انہوں نے نافرمانی کے الزام پر مجھے نوکری سے فارغ کردیا ۔ میں نہ جانے کیسے اپنے جذبات پر قابو پا رہا تھا مگر وہ روتا رہا ۔ ذرا سنبھلا تو کہنے لگا پھر کرنل مراد نے کسی کو فون کرکے مجھے WHO کی نوکری دلوائی اور مجاہدین کے کلکٹک کیمپ میں پوسٹ کروا دیا۔ سر میں روز انکی قبر پر جاکر ان سے سوال کرتا ہوں کہ آپ تودوسروں کو زندہ رکھتے تھے تو خود کو کیوں مارلیا ۔

ڈاکٹر قطب ولی میرے پاس آدھ گھنٹہ مزید بیٹھا رہا مگر ہم میں اس کے بعد کوئی بات نہ ہوئی ۔ وہ چپ چاپ اٹھا بغیر خدا حافظ کہے میرے آفس سے نکل گیا ۔ میں نے اس دن کے بعد کرنل مراد جیسی بہت ساری بے ایمانیاں کرنے کی ٹھان لی ۔

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button