طرز زندگی

مہنگائی کی بیماری

سننے میں آیا ہے کہ ارض پاک میں ایک جن بے قابو ہوگیا ہے۔ایک ایسا جن جو غریب کے خون کا پیاسا ہے۔تنگ دستوں کے منہ سے نوالا چھین چھین کر انہیں ستاتا ہے۔جی ہاں آپ صحیح سمجھے میں مہنگاٸی کے جن کے بارے میں ہی بات کر رہی ہوں۔جو ٹکٹکی باندھے غریب کے آنگن میں ڈیرہ ڈالا ہوا ہے اور ہزار کوششوں سے بھی ٹس سے مس نہیں ہورہا۔بلکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس جن کو کھلانے پلانے والا کوٸی اور نہیں بلکہ ہمارے اپنے امرإ ہیں ۔

آج بازار سے گزرتے ہوۓ میں نے ایک عجیب منظر دیکھا ایک مزدور شخص آٹھ گھنٹوں کی محنت مشقت کے بعد دوکاندار کے پاس آتا ہے اور اپنے دن بھر کی جمع پونجی سے کچھ ٹینڈے اور چند آلو خریدتا ہے۔دو بھکاری پہلے سے ہاتھ پھیلاۓ وہاں کھڑے تھےاور دوکاندار ہمیشہ کی طرح اس بات کا رونا رو رہا تھا کہ ہمیں پیچھے سے ہی مہنگا آتا ہے۔ جب میں پیچھے یعنی منڈی پہنچی تو وہاں گالیوں کا شور تھا۔مہنگاٸی کا سارا ملبہ حکمرانوں اور اداروں کی ناقص کارگردگی پر ڈالا جارہا تھا ۔ان سارے مناظرسے میں اکتا گٸی اور ذہنی سکون کے لٸے موباٸل کا ریڈیو آن کیا۔اب حسن اتفاق! یہاں پر حسب معمول حکمرانوں کی جنگ جاری تھی۔ایک دوسرے کو ملزم ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی ماتم منا رہے تھے کہ ہمارے اخراجات ہمارے آمدنی سے اور ہماری آبادی ہمارے پیداوار سے زیادہ ہے۔

اب میری طرح آپ کےذہنوں میں بھی یہ سوال ابھر رہا ہوگا کہ آخر اس مہنگاٸی کی اصل وجہ اور اس کا علاج کیا ہے ؟

جب میں اس سوال کے جواب کی کھوج میں نکلی تو مجھے صرف ایک لفظ میں اس کا جواب مل گیا،”ذاتی مفاد“۔ہمارے ملک میں ایک عام دوکاندار سے لےکر کرسیوں والے بابوں تک سب اپنے اپنے مفاد کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ایک نفسا نفسی کا عالم ہے۔ایک غریب کسان جو سال بھر اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے تو سال کے آخر میں اس کا مال مٹی کے داموں فروخت ہوتا ہے۔منڈی میں پہنچنے تک اس پیداوار کی قیمت میں خاصا اضافہ ہوا ہوتا ہے۔اور جب منڈی سے مارکیٹ میں آتا ہے تو آلو کی قیمت سونے کی قیمت جیسے لگنی لگتی ہے۔اور جب دوکاندار یہ بیچنا شروع کرتا ہے تو یہی آلو کی قیمت ہیرے کے دام کو چھو رہی ہوتی ہے۔کوٸی اپنے مفاد کے لٸے ڈبل منافہ لے رہا ہے تو کوٸی مافیا چینی اور آٹے کی ٹرکیں بھر بھر کے پڑوس ملکوں میں اسمگلنگ کر رہا ہے۔اور ایک مافیا ایسا بھی ہے جو اچھے خاصے پیداوار کو تہہ خانوں میں اسٹاک کرتا ہے اور ملک میں مصنوعی بحران پیدا کرتا ہے۔اور غریب عوام کو دال چاول تک کو ترساتا ہے۔

ان غریبوں میں ایک طبقہ ایسا ہے جو بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے کرتے دارِفانی سے کوچ کرجاتے ہیں اور ایک طبقہ ان سفید پوشوں کی ہے جو صرف ایک وقت کے کھانے پر گزارا کرتے ہیں۔اور یہی مہنگاٸی ملک میں مجرم پیدا کرنے کی بھی ایک وجہ ہے۔روزی کی تلاش میں یہی سفید پوش بعض اوقات غلط راستے اختیار کرتے ہیں۔

تو محترم قارٸین یہ ہے ہماری ذہنیت اور یہ ہے ہماری تربیت۔جب تک ہم اپنے ذاتی مفادات کو بھلا کر دوسروں کے بارے میں نہیں سوچیں گے ہم یوں ہی بد عنوان اور کرپٹ ہی رہیں گے۔لیکن اگر ہم ”ذات“ کی جگہ ”قوم“ کو رکھیں گے تو ہم مہنگاٸی تو کیا دہشت گردی اور جہالت جیسے مشکل ترین مسٸلوں پر بھی قابو پاسکیں گے۔

شاہی در و دیوار میری آواز سے گونجے
افلاک کی کرسی بھی ابھی طیش میں لرزے
غربت کے تنّے کو کوٸی اب جڑ سے اکھاڑے
بھوکے ہوۓ معصوم کبھی تھک کے نہ سوۓ
ایسا بھی کوٸی دن میرے آنگن میں بھی آۓ
ایسا بھی کوٸی دن میرے آنگن میں بھی آۓ

Advertisement

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button