خبریں

پیغامِ عید الفطر

سردار علی سردار

رمضان المبارک  اسلامی مہینوں میں سے نواں مہینہ ہےجو بہت ہی مبارک  اور الہی رحمتوں سے بھر پور ہے۔ اس مہینے میں مسلمانانِ عالم رمضان کے روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ خدا کے حضور سربسجود ہوکر اپنے گناہوں کا استغفار کرتے  ہوئے  عالم، انسانیت کی بقا، فلاح و بہبود،اتحاد   اور کامیابی   کے لئے  دعا کرتے ہیں ۔گویا   یہ مبارک مہینہ ہر مسلمان کو اپنی ظاہری اور باطنی پاکیزگی کا خیال رکھتے ہوئے  صبرو تحمل ، قوتِ برداشت اور اپنے نفس پر قابو پانے کی تاکید کرتا ہے۔ 

جاننا چاہیئے کہ عید کے معنی خوشی کے ہوتے ہیں اور خوشی ظاہری اور باطنی  ہوسکتی ہے۔ ظاہری خوشی یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان مل جل کر  عقیدت و احترام اور جوش و جذبے کے ساتھ خصوصی عبادت  کے طور پر دو رکعت  نمازِ عید ادا کرتے ہیں اور خدا کی مہربانیوں، رحمتوں اور نوازشات کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے  کے ساتھ  بغلگیر ہوکر مبارک بادی کے پیغام  دیتے ہیں جس سےاُن  میں  دوستی، محبت اور  تعللقات کے بندھن اور بھی  مضبوط ہوجاتے ہیں۔نفرت محبت میں بدل جاتی ہے اور دل میں کدورت  نہیں رہتی اور تمام لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر  ایک ہی امت بن کر اپنے مستقبل کے لئے نیک خواہشات اور نیک تمناؤں کی آرزو کرتے ہیں۔جبکہ باطنی خوشی یہ ہے کہ ایک مومن رمضان المبارک کےتیس دن روزے اور عبادت و بندگی کے ذ ریعے اپنے اندر تقویٰ اور پرہیزگاری  کی صفات پیداکرتا ہے۔ ایک مہینے کی ریاضت،صوم و صلواۃ  کی پابندی ا       ور پرہیزگاری  اسے سال کے باقی گیارہ مہینوں میں ایک مومن کے لیے گناہوں اور مکرو خرافات سے دوری کا بہترین  ذریعہ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کا   یہ مقدس مہینہ اپنے نفس پر قابو پانے، صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنے ، ایک دوسرے کو معاف  اور اچھے اخلاق کی تربیت کا پیغام دیتا ہے۔ساتھ  ہی ہمیں     معاشرے میں بھوکے اور دیگر قسم کے محتاج افراد سے تعاون اور ہمدردی کا درس دیتا ہے ۔

عید الفطر کا یہ مبارک دن ہمیں اپنے فکرو عمل  اورقول وفعل کے ذریعے   اپنے وجود میں طہارت اور پرہیزگاری پیدا کر نے کی تاکید کرتا ہے تاکہ اپنے نفس پر قابو پاکر اپنے اندر تقویٰ، طمانیتِ قلبی  اور اللہ کی قربت کے حصول کا شعور پیدا کیا جاسکے کیونکہ تقویٰ دراصل خدا کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اندھی اور بے جا خواہشات ،لالچ، غصہ اور خود اپنی ذات کے بارے میں سوچنے سے خود کو بچانے کا نام ہے۔ تفسیرِ نمونہ میں سید صفدر حسین نجفی نے نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث نقل کی ہے  آپﷺ فرماتے ہیں کہ ” اے لوگو! اللہ تعالیٰ کی برکت ،بخشش اور رحمت کا مہینہ تمہاری جانب آرہا ہے ، غریبوں اور محتاجوں پر احسان کرو۔ اپنے بڑے بوڑھوں کا احترام کرواور چھوٹوں پر مہربانی کرو، رشتہ داری کے ناطوں کو جوڑ دو، اپنی زبانیں گناہ سے روکے رکھو، اپنی آنکھیں ان چیزوں کو دیکھنے سے بند رکھو جن کا دیکھنا مناسب نہیں، اپنے کانوں کو ان چیزوں کے سننے سے روکے رکھو جن کا سننا مناسب نہیں، یتیموں پر شفقت و مہربانی کرو”۔ 

نبی کریم ﷺ کی اس پرحکمت حدیث سے یہ حقیقت واضح  ہو جاتی ہے کہ قرآن پاک کی تمام تعلیمات کا محور اور بنیاد  تقویٰ  ہے ۔ اگر تقویٰ کو عبادات سے الگ کیا جائے تو وہ صرف  Routine work  یعنی  روزمرہ کی کاراوائی رہ جاتی  ہیں مقصد کا حصول نہیں ہوتا ۔مطلب یہ ہے کہ ہر عبادت کے اندر مقصد پوشیدہ ہے اور ہر دانا انسان مقصد کو ہی اپنی عبادت کا  ذریعہ سمجھتا   ہے جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:

أَرَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ   ٘ فَذَٰلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ   ٘ وَلَا يَحُضُّ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ  ٘

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ  ٘ الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ  ٘ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ ٘ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ  ٘  107.7.

ترجمہ:اے رسول کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جو روزِ جزا کو جھُٹلاتا ہے ۔ پس یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور ایک دوسرے کو مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ۔ پس ایسے نمازیوں کے لئے خرابی ہے جو اپنی نماز سے غفلت کرنے والے ہیں۔ جو (نماز) کا  دکھلاوا کرتے ہیں ۔ اور عاریت دینے والی چیزوں سے منع کرتے ہیں۔

اس آیت ربانی سے یہ حقیقت واضح ہے کہ ہر عمل کے پیچھے مقصد کارفرما ہوتا ہے جو اس عمل کی روح کی حیثیت رکھتی ہے۔جو لوگ صوم وصلواۃ کی حقیقی روح سے ناآشنا  ہیں وہ دنیوی اور روحانی فیوض و برکات سے کوسوں دور ہیں۔اور وہ  اپنے اخلاقی، روحانی  و عقلی طور پر بھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج عید الفطر کے دن اپنے آپ کا محاسبہ کیا جائے۔اگر کوئی غلطی ہم سے سرزد ہوئی ہو یا ہم نے نادانستہ طور پر کسی کی دل آزاری کی ہے  تو اس صورت میں رمضان کے مقدس ایۤام میں توبہ استغفار کریں، اپنی گناہوں سے توبہ کریں اور خدا کے حضور سربسجود ہوکر بخشش طب کریں۔اپنے دل سے بغض، کینہ، تعصب،حسد اور دل آزاری جیسے اعمالِ خبیثہ کو  نکال کر دل کو خدا کی رضا کے لئے صاف کریں۔ قریب ہے کہ اللہ اس با برکت ایۤام کے طفیل اپنے بندے کے سارے گناہ معاف کردے۔ عارف رومی فرماتے ہیں  کہ 

آئینہ دل چون شود صافی و پاک

نقش ہا بیند بیرون از آب وخاک۔

روزنِ دل گر کشادست و صفا

میرسد بے واسطہ نورِ خدا۔

ترجمہ: جب دل کا آئینہ پاک اور صاف ہوگا تو پانی اور مٹی (مادے) سے ماوریٰ (روحانی)صورتوں کو دیکھ سکے گا اگر دل کا دریچہ کشادہ اور صاف ستھرا ہے تو براہِ راست اس میں خدا کا نور داخل ہوگا۔   (مولانا جلال الدین رومیؒ، کلیات مثنوی ص 594)

عارف رومی کے اس عارفانہ کلام سے یہ پیغام ہمیں ملتا ہے  کہ دل کی پاکیزگی سے ہی روح  کی پاکیزگی ممکن ہے اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پرہیزگاری اختیار کرتے ہوئے سادہ زندگی بسر کرے۔ اپنے خیالات اور خواہشات کو دین کے زرین اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ سادہ زندگی گزارنے سے معاشرے کے غریب انسانوں کے لئے ہمدردی کا احساس پیدا ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ خود بھوکا پیاسا رہنے سے ہی دوسروں کی بھوک اور پیاس کا احساس دل میں پیدا ہو جائیگا ۔ تفسیرِ نمونہ میں اما م جعفر صادق سے ایک روایت منقول ہے آپ فرماتے ہیں کہ ” روزہ اس لئے واجب ہے کہ غریب اور دولت مند کے درمیان برابری قائم ہوجائے اور یہ اس وجہ سے کہ دولت مند بھی بھوک کا مزہ چکھ لے اور غریب کا حق ادا کرے کیونکہ مالدار عموماََ جو کچھ چاہتے ہیں ان کے لئے فراہم ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندوں کے درمیان برابری ہو اور مالداروں کو بھی بھوک اور دردو الم (رنج) کا ذائقہ چکھائے تاکہ وہ کمزور اور بھوکے افراد پر رحم کریں” 

آج پوری دنیا میں اُمتِ مسلمہ کو وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے عالمی مسائل کا سامنا ہے ۔ دوسری طرف گزشتہ تین سالوں سے عالمی وبا پھیلنے کی وجہ سے کئی انسان  متاثر  ہو چکے ہیں  اور کئی انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں جس سے معیشت پر گہرا اثر پڑا ہے ۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں عیدالفطر کا پیغام یہ ہے کہ معاشرے کے غریب ،ناتواں اور بےسہارالوگوں کا سہارا بن کر ان کی مدد کرنا ہی اصل عید ہے ۔ اپنے مال میں دوسروں کو شامل کرنا ، یتیموں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنا ہی آخرت کی زندگی کو آباد کرنا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے 

وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ۔28.77.  

ترجمہ: اور جو کچھ تجھے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کو تلاش کرو اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھولو اور ہمیشہ (دوسروں) پر احسان کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے ۔

ہمیں چاہئے کہ قرآن پاک کی تعلیمات کی روشنی میں انفرادی طور پر عید کی خوشیوں میں اپنے سے کمزور کی مدد کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ نمودو نمائیش اور دیکھاوے سے گریز کیا جائے کیونکہ دیکھاوے سے خدا کی رضا حاصل نہیں کی جاسکتی ۔اس لئے کسی بھی نیکی کا  بدلہ خدا کو سپرد کرتے ہوئے اُس سے ہی اس کا صلہ طلب کیا جائے۔ لہذا انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ ذات پات ، رنگ نسل اور مسلک سے بلاتر ہوکر کسی کی مدد کی جائے  اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے۔اگر ہم مالی لحاظ سے دوسروں کی مدد نہیں کرسکتے  تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم  خدا کی رحمت سے دور ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے ذرائع اور بھی ہیں جن کے ذریعے سے ہم دوسروں کی ہمدردی  جیت سکتے ہیں مثال کے طور پر  ہم تھوڑا وقت نکال کر غریبوں کی خبر گری تو کرسکتے ہیں، ہمدردی ،غمگساری اوردلجوئی کے خوبصورت الفاظ اپنی زبان سے ادا کرسکتے ہیں تاکہ وہ یہ محسوس کریں کہ ہمارا بھی کوئی غمگسار موجود ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کا اارشاد گرامی ہے کہ : قول معروف صدقۃ  یعنی  کسی کے ساتھ  اچھی بات  کرنا بھی صدقہ ہے ۔

مختصر یہ کہ عیدالفطر  ہم سب کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اس مقدس مہینے میں خدا کی عبادت و بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی رحمتوں، مہربانیوں اور فیوض وبرکات کا شکر بجا لائیں اور غریب ناتواں اور بے سہارا بندوں کی مدد کریں اور خدا کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں اور اپنی زبان، گفتگو، اور گفتار  و کردار سے دوسروں کو متاثر کریں اور اپنے اندر صبرو تحمل اور قوتِ برداشت کا جوہر پیدا کرتے ہوئے انسانیت  کی فلاح و بہبود کے لئے کوشش کریں۔ بقولِ مسدس حالی 

یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان

کہ کام آئے دنیا میں انسان کے انسان۔

Advertisement
Back to top button