تاریخ اور ادبتعلیمثقافتٹیکنالوجیخبریں

شہزادہ کریم الحسینی کی یومِ ولادت

سردار علی سردار

شہزادہ کریم الحسینی 13 دسمبر 1936 ء کو اتوار کے دن سوئیٹزرلینڈ کے مشہور شہر جینوا میں پیدا ہوئے۔ جس کی ولادت پر دنیا بھر کے اسماعیلیوں نے کئی دنوں تک خوشیاں منائیں اور آپ کے دادا جان حضرت امام سلطان محمد شاہ آغاخان سویم کو مبارک بادی کے پیغامات بھیجے۔ آپ کے والدِ بزرگوار کا نام پرنس علی سلمان خان اور والدہ ماجدہ کا نام پرنسیس تاج الدولہ ہیں۔آپ کی دادی لیڈی علی شاہ نے آپ کا نام کریم رکھا۔

آپ کے دادا جان کو اپنے زمانے میں قدیم اور جدید علوم پرمکمل دسترس حاصل تھی۔ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کا پوتا بھی آپ کے نقشِ قدم پر چل کر قدیم و جدید علوم میں مہارت حاصل کرے۔اس مقصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئےآپ کو آپ کے چھوٹے بھائی پرنس امین کے ساتھ نیروبی (افریقہ)روانہ کردیا گیاجہاں آپ کی والدہ ماجدہ پرنسیس تاج الدولہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ افریقہ میں چار سال تک آپ کی ابتدائی مذہبی علوم کی تعلیم و تربیت کی گئی پھر نیروبی سے آپ کو دوبارہ سوئیٹزرلینڈ لایا گیا ۔ سوئٹزرلینڈ میں برصغیر کے جید علماء کی زیرِ نگرانی میں آپ کی تربیت ہوئی۔ ان علماء میں علی گڑھ کے مشہور استاد مصطفیٰ کمال کا نام سرِ فہرست ہے جنہوں نے فارسی،عربی اور اسلامی تاریخ سے آپ کو روشناس کرایا۔ 

بچپن سے آپ کو تعلیم کا بہت شوق تھا اس شوق کو پورا کرنے کے لئےآپ اور آپ کے چھوٹے بھائی پرنس امین کو سوئیٹزرلینڈ کے لی روزی اسکول میں داخل کیا گیا جہاں صرف شاہی خاندان کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔آپ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل اور مشاغل میں بھی حصۤہ لیتے تھے۔ ان مشاغل میں Skating اور گھوڑ سواری میں خاص دلچسپی رکھتے تھے۔

1953ء میں آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے ہارورڈیونیورسٹی میں داخل کیا گیا جہاں آپ اسلامک اسٹیڈیز میں بہت دلچسپی لی۔ آپ نے اس یونیورسٹی میں تاریخِ اسلام ،تصوف، عربی اور فارسی زبانوں میں تعلیم حاصل کیا اور اول درجے کے طالب علم رہے۔

آپ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کے پاس گاڑی بھی نہیں تھی۔ آپ خود پیدل چل کر یونیورسٹی آتے تھے جبکہ آپ کے دیگر ساتھی جو عالمی شہرت یافتہ سیاست دانوں کے بچے تھے جو ہر وقت عیاشی اور عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے تھے مگر ان کے مقابلے میں آپ کی زندگی بہت ہی سادہ تھی اور اکثر بس پر یونیورسٹی آتے تھے اور اپنی پوری توجہ پڑھائی میں صرف کرتے تھے ۔ 1957ء میں آپ کو مسندِ امامت کی ذمہ داریاں بھی دی گئیں۔ آپ امامت کی اس اہم ذمہ داری کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا اور 1959ء کو بی اے انرز کی ڈگری تاریخ میں حاصل کی۔

آپ کے دادا جان حضرت امام سلطان محمد شاہ آغاخان سویم کی خواہش تھی کہ اُن کا پوتا ان کے نقشِ قدم پر چل کر عالم اسلام کے سامنے زندگی کا ایک جدید نقطہ نظر لائےاور جماعت کو دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرے۔ جیسا کہ آپ نے اپنی وصیت میں لکھا تھا ” حالیہ سالوں میں دنیا میں بدلتے ہوئےدنیاوی حالات کے پیش نظر بڑی بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے جن میں ایٹمی سائینس کی دریافتیں بھی شامل ہیں ہمارا یقین ہے کہ یہ شیعہ مسلم اسماعیلی جماعت کے بہترین مفاد میں ہوگا کہ ہمارا جانشین ایک نوجوان آدمی ہو جس نے حالیہ سالوں کے دوران اور جدید دور میں پرورش پائی ہو اور ہوش سنبھالاہو اور جو اپنے منصوبے میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدید نقطہ نظر لائے”۔ تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ حصۃ چہارم ص 164 

شہزادہ کریم نے اپنے دادا جان کی اس وصیت کے مطابق دنیا میں سائنسی تبدیلیوں، بدلتے حالات اور مادی اثرات کے سبب جدید اور روایتی طرزِ زندگی میں جو تصادم پیدا ہوچکے تھےکے حل کے لئے جو نمونہء عمل دنیا کے سامنے رکھا وہ یقیناََ ایک ہمہ گیر نظریہ زندگی ہے اور جدید تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ 

جب آپ تحتِ امات پر جلوہ افروز ہوئے تو سب سے پہلے آپ دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ فرمایااور کئی ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور اُن کو اپنے وژن سے اگاہ کیا ۔آپ نے معاشرے سے غربت کو ختم کرنے اور اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لئے 1967 ء کو آغاخان فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی ۔ اس ادارے کا مقصد معاشرے سے غربت کو دور کرکے معاشی،صحتی اور اقتصادی منصوبے کو بلارنگ و نسل ، ذ ات پات پایہ تکمیل کو پہنچانا ہے۔اے کے ارایس پی اس ادارے کا ایک اہم حصۤہ ہے جو شمالی علاقہ جات اور چترال میں دہی سطح پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مختلف قسم کے منصوبے چلا رہی ہے۔گویا غربت کو ختم کرنے کے لئے اے کے ار ایس پی نے گلگت اور چترال کے دور افتادہ علاقوں میں اپنی بے مثال خدمات پیش کیں ۔ زلزلہ اور سیلاب سے تباہ شدہ لوگوں کے لئے فوکسAKAH)) کی طرف سے شیلٹر اور بنیادی ضروریات کی چیزیں مہیا کرنے کا سہرا بھی AKDN کے سر ہے ۔ یہ AKDN کی محنت اور کاوش کا نتیجہ ہے کہ چترال کے دور افتادہ بلائی علاقوں میں جہاں موسم سرما میں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کی یخ بستہ ہوائیں اور سخت سردی لوگوں کو گھروں کے اندر مقید رہنے پر مجبور کرتی ہیں لیکن لوگ ایسے ناگفتہ بہ اور جان لیوا سردی میں بھی موسم گرما کی طرح جگہ جگہ بنائے گئےگرین ہاوسیز میں فریش اور پکے ہوئے مختلف قسم کے پھل اور سبزیان جیسے خربوزہ، شلغم، گاجر، ٹماٹر پالک وغیرہ انہیں میسر ہیں جنہیں دیکھ کر خیالی جنت کا منظر حقیقت میں نظر آتی ہے۔

عقیل عباس جعفری 14 دسمبر 2020 ء کو کراچی میں انٹرنیٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون بعنوانِ” آغاخان: سرسلطان محمد شاہ سے شہزادہ کریم تک ، اسماعیلی برادری کے خاندانِ اول کی دلچسپ تاریخ” میں رقمطراز ہیں کہ ” پرنس کریم آغاخان دنیا بھر کے لوگوں کے مالی، علمی اور صحت کے امور میں مدد کرنے کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ انہوں نے منصب امامت سنبھالنے کے بعد آغاخان ڈیویلپمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور رفاہی کاموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز کیا جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں”۔

آپ کے اہم کارناموں میں سب سے اہم کام کراچی میں آغاخان یونیورسٹی ہے جس کے وجود میں آنے سے اسماعیلی تشخص میں اضافہ ہوا ۔ دنیا کو یہ معلوم ہوا کہ ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان نے اپنے آباواجداد کے نقشِ قدم پر چل کر آغاخان یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ہے تاکہ انسانیت کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لایا جاسکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلامی دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی جامع الازہر جو آج بھی علم کی روشنی کا منارہ ہے ۔ اس یونیورسٹی سے مذہبی بنیاد کو استحکام بخشا گیا اور انسانیت کو جہالت سے علم کی روشنی کی طرف لایا گیا اور یہ آئمہ اہلیبیت کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ بغیر کسی سیاست اور بغیر کسی مادی منفعت کے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔آپ کے دادا جان سر سلطان محمد شاہ آغاخان سویم نے برصغیر ہندو پاک میں علیگڑھ یونورسٹی بنانے کے لئے شب وروز ایک کرکے چندہ جمع کرنے کے لئے مہم شروع کی جس میں مولانا شوکت علی آپ کے سیکریٹری بنےجبکہ کئی دیگر نامور شخصیات جیسے ڈاکٹر ضیالدین، سرمحمد اقبال اور مولانا شبلی نعمانی وغیرہ آپ کے ساتھ ممبر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ سرسلطان محمد شاہ آغاخان سویم نے اپنی اس وفد کو لیکر آلہ آباد گئے اور ایک جام غفیر کے سامنے تقریر کی جس میں علیگڑھ یونیورسٹی کی اہمیت بیان کی تو بھوپال کی رانی نے اس وقت ایک لاکھ روپے کے خطیر رقم کے عطیہ کا اعلان کیا ۔ امام نے رانی صاحبہ کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا ” دلِ بندہ را زندہ کردی، دلِ اسلام را زندہ کردی، دلِ قوم را زندہ کردی، خدائے تعالیٰ بطفیل ِ رسول اجرش بدھد”

ترجمہ: آپ نےمیرا دل زندہ کردیا ، آپ نے اسلام کا دل زندہ کردیا ، آپ نے اس قوم کے دل کو زندہ کردیا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺکے طفیل اس کا اجر آپ کو دے۔ تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ حصۤہ چہارم ص 69 

آپ کی کوششوں سے جب علیگڑھ یونیورسٹی بنی تو برصغیر میں علم کا ایسا چراغ روشن ہوا جو رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کے لئے روشنی کا پیغام دیتا رہا اور آج تک اس کے دوررس ثمرات اُمتِ مسلمہ کو مل رہی ہیں۔

ہز ہائی نس شہزادہ کریم کی ان بے شمار خدمات کو اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ترقی کا ایک جامع تصور رکھتے ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں آپ کی خدمات شامل نہ ہو ۔گویا آپ نے امامت کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنے مریدوں کو جو ہدایت کی تھی وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی ۔ آپ نے فرمایا تھا ۔ ” ہمارے دادا جان نے اپنی زندگی امامت اور اسلام کے لئے وقف کردی تھی۔ یہ دونوں اُن کے لئے آولین اور سب سے بلاتر تھے۔ ان کے آخیری مہینے میں جو ہم نے ان کے ساتھ گزارا اور دوسرے کئی اوقات میں ہمیں کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ، ان کی رہنمائی اور حکمت ہمارے لئے کافی مددگار ثابت ہوگی۔ ہم تمہاری دنیوی اور روحانی ترقی کے لئے ہرممکن کام کریں گے جیسے کہ تم ہمارے پیارے دادا جان کے دل اور خیالات میں تھے اسی طرح ہمارے دل اور خیالات میں ہوں گے”۔ تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ جلد چہارم ص 165 

ہز ہائی نس شہزادہ کریم نے اپنے اس ارشاد کے مطابق اپنی جماعت ، امتِ مسلمہ اور عالمِ انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لئے شب وروز محنت کررہے ہیں جس کی وجہ سے آپ آج دنیا میں وہ مقام حاصل کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔آپ کی ذ ات میں احترامِ انسانیت ، محبت، ہم دردی ،فیاضی رحم دلی وغیرہ اخلاقی خوبیاں بیک وقت جمع ہیں۔آپ کی دور اندیشی اور مضبوط وژن نے یہ ثابت کیا کہ پوری دنیا میں انسانیت کی خدمت کے لئے آپ کے پاس 21 ویں صدی میں اعلیٰ اور معیاری ادارے موجود ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ، ہنرمند اور تجربہ کار لیڈرشیپ ہمہ تن گوش ہوکر مصروفِ عمل ہیں اور یہ تمام لوگ آپ کی اعلیٰ قیادت کی روشنی میں انسانوں سے محبت اور ان کی زندگیوں کو آسودہ بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص قطعہ زمین پر تسلط نہ رکھنے کے باوجود ایسے حکمران ہیں جو اپنے پیروکاروں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔”گویا ہزہائینس پرنس کریم آغاخان کی زندگی ایک کھلی ہوئی کتاب کی مانند ہے۔ اس کتاب کا ایک ایک صفحہ روشن اور ہر صفحے کا ایک ایک لفظ خدمت و بامقصد زندگی گزارنے کا پیغام دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے” 

                                            سید اصف جاہ جعفری ۔ دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ ص 145 

Advertisement
Back to top button