اپر چترالانتقال پر ملالموڑکھو

ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

سردار علی سردار

 

ہنس مکھ اور چہرے پر مسکراہٹ بکھرنے والے محترم عبدالمظفر شاہ آج ہم میں نہیں رہے۔ لیکن اپنی طبعی نقوش اور کردار کی مہک ہم میں چھوڑ گئے۔ موصوف کے نام کیساتھ مرحوم لکھتے ہوئے دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہے اور قلم کی نوک پر لرزاں طاری ہوجاتی ہے۔اس عجیب کشمکش میں مبتلا ہونے کے بعد جب میں اپنے دل کو تھام لیتا ہوں تو اصل حقیقت واضح ہوجاتی ہےکہ موصوف واقع ہمیشہ کے لئے داعیء اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں اور جس کی یاد میں مجھ سمیت موصوف کے چاہنے والے تمام انسان اس کی جدائی اور فراق میں افسردہ اور اشکبار دیکھائی دیتے ہیں۔

مرحوم کے ساتھ خاندانی رشتہ داری اور ہمسائیگی اپنی جگہ لیکن ہمارے بیج ہمیشہ دوستانہ اور خوشگوار تعلقات قائم رہے ہیں۔ وہ جب بھی میرے گھر کے پاس سے گزرتے تو ضرور میرے غریب خانے میں تشریف لاتے اور حال احوال پوچھ لیتے۔ اس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوجاتی اور اس کی عزت و تکریم ہمارے دل میں اور بھی بڑھ جاتی۔
آپ 10 اکتوبر 1962 ء کو سہت پائین کے ایک خوبصورت گاؤں جمیلی کے ایک معزز دشمانے خاندان میں زرین شاہ المعروف براموش کے ہاں پیدا ہوئے جو بہت ہی غریب پرور اور انسان دوست شخصیت تھے جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ میراگرام کے ایک معزز زوندرے خاندان محبت صاحب خان چارویلو کی ہمشیرہ تھی جس نے اپنی خاندانی روایات اور اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے لختِ جگر کی ایسی تربیت کی کہ معاشرے کے لوگوں کے لئے اچھا انسان اور ایک قابل فخر پولیس افسر بننے کی صلاحیت کا مالک رہے۔آپ کے دادا جان کو دنیا حضرت جی المعروف جمیلتیک کے نام سے جانتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ آپ ریاستی دور میں چترال کے واحد آدمی تھے جس کے پاس بیک وقت چار اہم عہدے تھے۔وہ علاقے کے براموش تھے، باڈی گارڈ میں صوبیدار میجر، موڑکہو کے حکیم اور کونسل کے ممبررہ چکے تھے۔ اسطرح آپ کا بیٹا لفٹننٹ سردار امان شاہ بھی اس علاقے میں ہر دل عزیز اور اہم شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ جس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور ذہانت کے بل بوتے پر 1948ء میں نہ صرف کشمیر کی جنگ کے ہیرو رہ چکے تھے بلکہ اپنی پوری زندگی سماجی اور سیاسی معاملات میں بہ حیثیت چئیر مین موڑکہو معاشرے کی فلاح و بہبود میں اپنا مثبت کردار ادا کرچکے ہیں۔

مرحوم عبدالمظفر شاہ 1979ء کو گورنمنٹ ہائی سکول دراسن سے اپنی سکنڈری تعلیم مکمل کی اور 1980 ء میں کے پی کے کے محکمہ پولیس میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔آپ نے انتہائی محنت اور دیانت داری سے سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے ساتھ ساتھ بورڈ اف انٹر میڈیٹ اینڈ سکنڈری ایجوکشن پشاور سے نہ صرف ایف اے کا امتحان پاس کیا بلکہ اپنے محکمے میں حوالداری کے عہدے کے لئے LSC (لوئیر سکول کورس) کا امتحان بھی پاس کیا۔ اسطرح 1986 ء کو C (1) H.C کا کورس مکمل کرنے پر ہیڈ کنسٹبل کے عہدے پر آپ کی ترقی ہوئی اور آپ چترال کے مختلف تھانوں میں اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی اور محنت سے نبھاتے رہے۔یکم جنوری 2003 ء کو ASI میں ترقی پائے ۔ اسطرح یکم دسمبر 2013 ء کو انسپکٹر کے عہدے پر آپ کو ترقی دی گئی ۔آپ کے دل میں منزل تک پہنچنے کا ایک ہدف اورایک مضبوط وژن تھا جس کے حصول کے لئے آپ مسلسل محنت اور کوشش کرتے رہےجس کی وجہ سے کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی اور آپ 2019 ء کو Acting DSP H.Q Chitral مقرر ہوئے۔ترقی کی یہ رفتار رکی نہیں بلکہ آگے بڑھتی چلی گئی ۔ مارچ 2021 ء کو ہیڈ کوارٹر چترال سے آپ کا تبادلہ ہوا اور آپ SDPO موڑکہو اور تورکہو مقرر ہوئے۔

اپنے عہدہ ملازمت کے طویل سفر کے دوران چترال کے مختلف جگہوں کے علاوہ چترال سے باہر تیمرگرہ اور لوئیر دیر میں بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کا آپ کو موقع ملا۔ شرین گڑھ میں آپ OII (Officer Investigation Incharge) مقرر ہوئے۔اسطرح لوئیر دیر میں بہ حیثیت RIP Reserve Inspector of Police))
تعینات ہوئے۔ اس دوران کئی مفرور گرفتار کرنے کے ساتھ ساتھ منشیات میں ملوث مجرموں کے ساتھ نبرد آزما ہوتے رہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور دوست احباب کی خاص دعاؤں کے طفیل کامیاب ہوئے۔آپ کےمدبرانہ سوچ ، اچھی منصوبہ بندی اور Achievement کے نتیجے میں سرکار کی طرف سے کئی بار انعامات اور سرٹیفیکٹس آپ کو دیئے گئے اور اعلیٰ حکام کی طرف سے آپ کے حسنِ کارکردگی کو سراہا گیا۔

آپ اپنی پوری زندگی میں غیرت، ایمانداری اور فرض شناسی کو اپنا مقصد بنایا جس کی وجہ سے آپ محکمہ پولیس میں عزت اور وقار کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ جہاں بھی رہے لوگوں کے دلوں میں حکمرانی کی اور عوامی مسائل کو عدل و انصاف کے ترازو میں تول کر فیصلہ کرنے کی سعی کی۔ آپ اپنی ڈیوٹی کو فرض اور عبادت سمجھ کر انجام دینے میں کوشان رہے اور کبھی بھی اس میں پہلو تہی اور کمزوری نہیں دیکھائی ۔ آپ گزشتہ ایک سال سے سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ہمت نہیں ہارے اور اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔
آپ بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے مالک شخصیت تھے ۔ آپ اپنے محکمے میں حسنِ اخلاق اور شرافت کی وجہ سے اپنا ایک الگ پہچان رکھتے تھے۔ اپنے ماتحت ساتھیوں سے آپ کا روۤیہ بہت ہی مشفقانہ اور دوستانہ تھا ۔ وہ ایک اعلیٰ پولیس افیسر ہونےکے باوجود بھی نہایت حلیمی اور خاکساری سے سب کے ساتھ یکسان سلوک اور محبت سے پیش آتے تھے۔ آپ کے تمام ساتھی آپ کی قیادت میں کام کرکے خوشی محسوس کرتے تھےاور انہیں کبھی بھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا تھا ۔ انجان بھی ایک دفعہ آپ سے مل کر آپ کے اخلاق اور شرافت سے متاثر ہوکر دوبارہ آپ سے ملنے کے لئے متمنی رہتے تھے۔

موصوف کی ایک صفت یہ بھی تھی کہ آپ اپنے آباواجداد کے نقشِ قدم پر چل کر سماجی معاملات میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کرچکے ہیں۔ معاشرے کے اندر بین المسلکی معاملات میں بھی ہم اہنگی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ مختلف مواقعوں پر معاشرے کے مصلحتی جرگوں میں شامل ہوکر اپنے مفید مشوروں سے لوگوں کو مستفیض کرچکے ہیں۔
آج عبدالمظفر شاہ مرحوم اگرچہ ہم میں نہیں رہے لیکن آپ کی محبت ، آپ کا نام ، آپ کی خوبصورت شخصیت اور احترامِ انسانیت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گی۔ چترال کے اس عظیم سپوت سے مستقبل میں خدمات کے حوالے سے بہت ساری تواقعات وابسطہ تھیں لیکن داعیء اجل کے سامنے سب بے بس ہیں۔ ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا پڑتا ہے۔آپ 21 نومبر کی رات 9 بجےطویل علالت کے بعد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اور 22 نومبر پیر کے دن دوپہر ایک بجے ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں اپنے آبائی قبرستان جمیلی میں سپردِ خاک ہوئے۔ تدفین کے بعد مرحوم کا اپنا بیٹا حافظ قرآن شعیب ظفر شاہ نے اپنی خوبصورت آواز میں قرآن پاک کی تلاوت کرکے اپنے والدِ بزرگوار کی روح کی ایصالِ ثواب کے لئے دعا کی ۔
سعدی شیرازی ؒ نے کیا خوبصورت بیت لکھی ہے۔
چو آہنگِ رفتن کند جانِ پاک
چہ بر تختِ مردن چہ برروئی خاک
ترجمہ: جب پاک روح جسم سے نکلنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے تخت پر مرنا یا خاک پر دونوں برابر ہیں یعنی موت ہر صورت میں آتی ہے جس کے لئے انسان کو ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔
آپ کے ورثا ء میں آپ کی شریک حیات، چار بیٹے وسیم ظفر شاہ، خالد ظفر شاہ،شعیب ظفر شاہ اور عظمت ظفر شاہ ہیں جبکہ آپ کی بیٹیوں میں نادیہ، ہادیہ اور شکیلہ ہیں۔ موصوف کے اولاد اپنے والد بزرگوار کی سرپرستی میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوچکے ہیں البتہ چھوٹا بیٹا عظمت ظفر شاہ ابھی دسویں جماعت میں زیرِ تعلیم ہیں۔مرحوم کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ آپ کا ایک بیٹا شعیب ظفر شاہ حافظ قرآن ہیں جبکہ بیٹیوں میں نادیہ اور ہادیہ گورنمنٹ مڈل سکول سہت موژودور میں درس و تدریس کے مقدس شعبے سے منسلک ہیں اور آپ کی چھوٹی بیٹی شکیلہ ناز بھی پشاور یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرکے کسی اہم عہدے کے حصول کے لئے تیاری کررہی ہیں۔ہمیں امید ہے کہ موصوف کی یہ ساری اولاد اپنے والدِ محترم کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی تعلیم ،ہنر اور اعلیٰ انسانیت سے معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

Advertisement
Back to top button