تعلیمکالم نگار

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا

شکیل انجم ڈِرو

یہ قبر میں میری پہلی رات تھی۔ ایک پرسکون نیند سے اس وقت بیدار ہوا جب برابر والے قبر سے کراہنے کی آواز آئی۔ مرنے والا کوئی بیوروکریٹ تھا۔ بار بار انگلی سے کچھ دبانا چاہ رہا تھا لیکن اُس کا جسم اُس کے اختیار میں نہیں تھا۔ اس کم مائگی کی توجیہہ پوچھنے پر پہلے تو حقارت سے میری طرف دیکھا (جس طرح عام طور پر دنیا میں اپنے دفتر میں آنے والے سائیلین کو دیکھتے ہیں) پھر بادلِ نخواستہ گویا ہوے اور کہنے لگے ” پتا نہیں کمبخت چپڑاسی کہاں مر گیا ہے، کہیں نظر ہی نہیں آرہا ہے، گھنٹی بجانے کی کوشش کررہا ہوں لیکن یہاں نہ کویٔ گھنٹی ہے نہ ہی کویٔ چپڑاسی کہنے لگا، عجیب طاقت کے نشے سے چور تھا اُس دنیا میں۔ ایک حکم پر بیک وقت کئی ملازم ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہوتے تھے اوراحکامات صادر کرنے کےلیے میرے اشارے اور کنائے کافی ہوتے تھے ، کسی سائل کی التجا کی شنوائی خلاف شان امر تھا، "صاحب میٹنگ میں ہے” کا بے معنی اور بھونڈا جملہ ،پرسنل سیکرٹری کو ازبر تھا ۔ صاحب کے گمان میں مرنے کی بیماری صرف غریبوں کو ہی لاحق ہوتی تھی جب میں چہل قدمی کرتے ہوۓ کچھ آگے نکلا تو دیکھا کہ ایک سیاستدان پریشان حال کھڑا ہے۔ شاید چند دن قبل ہی یہاں تشریف لائے تھے اس لیٔے اپنے واسکٹ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پتہ نہیں یہ کیسا ویرانہ ہے، نہ کوئی زندہ باد کا نعرہ سنائی دے رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہار پہنانے آیا ہے۔ اُدھر کیا مزے تھے۔ہمیشہ لوگوں کا ایک جمِ غفیر ہوتا تھا۔ بِچارے لوگ جھوٹی تسلیوں سے خوش ہو کر دعائیں دے کر جاتے تھے اور پھر الیکشن جیتنے کے بعد اقتدار کا ایسا نشہ چھا جاتا کہ روڈ پر چلنے والے ووٹرز چیونٹیوں سے بھی حقیر ںظر آتے۔
میں اِن لوگوں کی حالتِ زار دیکھ کر پریشانی کے عالم میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک جج صاحب اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے چا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ کیسے وہ اپنی عدالت میں جاہ و حشمت سے براجماں ہوا کرتے تھے ۔ مجال تھی کسی کی کہ کوئی اُس کے سامنے زور سے بات کرنے کی جرات کرے۔ جس کو چاہتے گنہگار ٹھراتے اور جِسے چاہتے عزت دار۔ اُن کے قلم کی ایک جنبش سے کوئی عمر بھر کا قیدی بنتا تو کوئی آزاد پنچھی۔ صاحب چیخ چیخ کرفرشتوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ ایک جج ہیں انہیں کیسے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے، لیکن افسوس، اِس دفع اُس کی کوئی شنوائی نہی ہو رہی تھی۔ اب کے بار عدالت اُس کی نہیں "مںصفِ عالیٰ” کی تھی اور دو فرشتے اپنے اپنے دلائل تمام ثبوتوں کے ساتھ دے رہے تھے اوریہ تمام ثبوت (صاحب کے اعمال) فلم کی شکل میں دیکھاۓ جا رہے تھے۔ یہاں نہ ثبوتوں کو مرضی سے تبدیل کیے جانے کا کوئی سلسلہ تھا اور نہ ہی مرضی کے جھوٹے گواہ پیش کیے جا سکتے تھے۔ عجیب عالم تھا، بس صرف انصاف کی بات ہورہی تھی۔
گھبرا کےمیں نے جیب سے موبائیل نکالنے کی کوشش کی تاکہ کسی دوست احباب کو فون کر سکوں، پھرخیال آیا کہ میں تو مر چکا ہوں اوراِس دنیا میں کہاں جیب اور کہاں موبائل؟ بس سات گز کا کفن ہے، جِس میں لپیٹا گیا ہوں۔ کچھ فاصلے پر دیکھا تو ایک ڈاکٹر صاحب غالباً حال ہی میں کسی سرکاری ہسپتال میں جعلی دوا کھانے سے مرگئے تھے اور ہاتھ جوڑ کر فریاد کر رہے تھے کہ اُنہیں کہیں سےاصلی انجکشن لاکر دیا جاۓ تو شاید کچھ افاقہ ہو۔ کہہ رہے تھے کہ کاش ہسپتال کی ساری دوائیاں اپنے کلینک پر منتقل نہ کرتا اور مریضوں کو بے جا دوائیاں لکھ کر نہ دیتا تو جعلی دوائی اُس کے موت کا سبب نہ بنتیں ۔
کچھ اور قدم آگے بڑھانے پر دیکھا کہ ایک پٹواری صاحب ہاتھ میں جریِپ (پٹواریوں کا فیتہ) لے کر کچھ تولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوچھنےپرمعلوم ہوا کہ بندہ عجیب سی مشکل میں ہے، قبر کی سات فٹ کی جگہ کم پڑ رہی ہے اس لئے آس پاس سے کچھ اِضافی جگہ اپنے نام انتقال کرنا چاہتا ہے ، لیکن مجال ہے کوئی سنے۔ یہاں تو اُس کی اپنی قبر کا انتقال ہی مشکل تھا ۔ کہنے لگے، اُس دنیا میں تومیری بادشاہت تھی، کسی غریب، بیوہ، کمزور اور مفلس کی زمین کسی دوسرے کے نام کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتا تھا اور کام کرنے کی رشوت۔ کاش وہاں ناجائز قبضے نہ کرواتا تو آج قبر کی زمین کشادہ ملتی۔ اسی مٹر گشت میں ایک کوتوالی (تھانیدار) سے ملاقات ہوئی۔ مجّرم کو بےقصور اور مجبور سے زبردستی اقرارِ جرم کروانا معمول کی بات تھی ۔ اسی زعم میں پہلے تو دھمکی دے رہا تھا کہ اس کے ساتھ نہ چیھڑا جائے کیونکہ اُس کے مراسم بڑے بڑوں سے ہیں ، ۔ لیکن جب بات بنتے ںظر نہ آئی تو چلّاتے ہوئے کہنے لگا کہ خدا کے لئے مجھے چھوڑ دو میں بے گناہ ہوں، لیکن عالمِ انصاف میں کس کی سفارش کام آتی ہے۔ یہی کچھ فاصلے پر ایک ٹیچر ملا جو اِن سب کے مقابلے میں کچھ پرسکون تھا۔ علم کی شمّع جواُس نے دنیا میں پھیلائی تھی اب چراغاں بن کے اُس کو روشنی دے رہی تھی، البتہ کچھ مضطرب وہ بھی تھا۔ کہہ رہا تھا، کاش میں وقت پر کلاس میں حاضر ہوتا اور بچوں کو ٹیوشن پر بلانے کے بجائے سکول میں ہی دل سے پڑھاتا تو یہ جو تھوڑا بہت اندھیرا ہے وہ بھی روشن ہوجاتا۔
قبر میں میری اگلی ملاقات ایک نوجوان امیر کاروباری شخص سے ہوئی، جسے یہ یقین ہی نہ تھا کہ وہ مر گیا ہے۔ کہہ رہا تھا، ابھی تو میں نے دولت اکٹّھا کرنا شروع کیا تھا۔ میں کیسے مر سکتا ہوں۔ شائد فرشتوں سے کوئی بھول ہوئی ہو گی۔ لیکن،اللّہ کے برگزیدہ فرشتے کہاں غلطی کرتے ہیں۔ یہ تو انسانی صفّت ہے۔ جب اُس امیر نوجوان کو عدالتِ عظمیٰ میں لے جا یا جانے لگا تو، روتے ہوئے اپنی ماں کو آواز دینے لگا۔ لیکن کہاں سے وہ اپنی ماں کی آواز سنتا، اُسے تو وہ "اولڈ ہومز” چھوڑ چکا تھا، کیوں کہ وہ بوڑھی ہو چکی تھی، آئے روز بیمار پڑ جاتی تھی اور ماں کوڈاکٹر کے پاس لے جانے کے لئے وقت نہیں ملتا تھا ،چھٹی کرنے سے کاروبار کا نقصان ہوتا۔ خود کو کوس رہا تھا کہ کاش کچھ پل ماں باپ کے ساتھ بیتائے ہوتے، تو آج اُن کی دعائیں شاید بخشش کے کام آتیں ، لیکن اب پچھتانے کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔
بہت سارے کرداروں کواِس حال میں دیکھ کر میرا بدن لرزنے لگا، کپکپکی طاری ہونے لگی اور ایک بے اختیار چیخ منہ سے نکلی۔ چیخ کی آواز سن کرامّی دوڑتے ہوئے کمرے میں آئی اور وہی ممتا کی شفقت سے بھرپور ہاتھ سر پر پھیرتے ہوئےآواز دینے لگی۔ امّی کی جادوئی آواز جب میرے کانوں میں پڑی تو لگا کہ مجھے پر لگے ہیں اور میں ہواؤں میں اڑنے لگا ہوں۔ والدہ کے وجود کو قریب پا کر عجب سا اطمینان چہرے پراتر آیا، آنکھ کھلی اور سامنے امّاں کو دیکھ کر پرسکون مُسکراہٹ ہونٹوں پر آئی اور اللّہ کا شکر ادا کیا۔ پھر بیتے ہوئے لمحوں پر غور کیا تو اندازہ ہوا کہ ہم انسان جب تک زندہ ہیں، ہمیں لگتا ہے کہ مرنا کسی اور کےلیے ہے اور ہم ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ ہم بزبان شاعر بھول جاتے ہیں کہ "خاکِ میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں”دعا ہے کہ خداوندِ عالمین، ہم سب کوروزِ محشر کو ذہن میے رکتھے ہوئے اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
کل پاؤں ایک کاسئہ سر پر جو آگیا
یکسروہ اِستِخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہِ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا
(میر تقی میر)

Advertisement
Back to top button