اپر چترالخواتین کا صفحہسماجیصحت

آغاخان ہسپتال بونی میں خواتین کے زچگی ایام میں ڈاکٹروں کا رویہ

کریم اللہ

 

چونکہ سال روان کے دوران مجھے اپنی اہلیہ کی پریگنینسی کی وجہ سے ہسپتالوں کا کافی چکر لگانا پڑا اور اس دوران جو تلخ تجربات سے میں گزرا ان کو بیان کرنا اب میری مجبوری بن گئی ہے کیونکہ ڈیلیوری کے دوران مس کئیرنگ وغیرہ کی وجہ سے آج میرے اہلیہ کی صحت میں جو پیچیدگیاں پیدا ہوچکی ہے اس کی ذمہ داری ان ڈاکٹروں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے پورے نو ماہ تک تجربات کرتے رہے اور آخر کار آپریشن کرکے بچی کونکال کے اس کے بعد جو غلط ٹریٹمنٹ دی گئی اس کی وجہ سے مستقل اذیت سے گزر رہا ہوں۔آج کے اس بلاگ میں آغا خان ہسپتال بونی یا بونی میٹرنٹی ہوم کے حوالےسے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بونی میٹرنٹی ہوم اپر چترال میں تھوڑا بہت معیار فراہم کرنے والا واحد ادارہ ہے خاص کر اس ادارے کا نرسنگ کیر سسٹم بہت ہی اچھا ہے مگر یہاں پر مریض ڈاکٹروں کے رحم و کرم پہ ہوتے ہیں ۔ زچہ و بچگی کے آیام میں اپر چترال کے اکثر لوگ اس ہسپتال کا رخ کرتے ہیں ، یہاں کے مریضوں کی اکثریت یہ شکایت کررہے ہیں کہ یہاں کے گائینی کالوجسٹ کا رویہ مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ کبھی بھی دوستانہ نہیں البتہ ہر وقت مریض اور ان کے لواحقین سے لڑنے جھگڑنے کی باتین زبان زد عام ہے ۔ میری وائف کی پریگننسی کے شروع کے آیام سے ہی اسی ادارے میں ان کا ٹسٹ کروایا تو ڈاکٹر نے بلڈ کی شدید کمی کا کہا اور مختلف میڈیسن لکھ دیا ساتھ ہی ہدایت کردی کہ ہر ماہ پراپر معائینہ کروایا جائے۔ اسی تناظر میں ہم کم و بیش ہر ماہ نہ بھی ہو تو ہر دوسرے ماہ ان کا معائینہ کرتے رہے اور ہر مرتبہ ڈاکٹر یہی فرماتے رہے کہ ان میں خون کی شدید کمی ہے اسی وجہ سے ممکنہ طور پر ڈیلیوری کے آیام میں پیچیدگیوں کے امکانا ت ہے، اور آپریشن ہونے کی صورت میں مزید مسائل کی نوید سنا دی۔ آٹھوین ماہ کے شروع ہی میں میری والدہ انہیں لے کر پھر اسی ہسپتال آئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ ایک تو بچہ الٹا ہے اور دوسرا خون بالکل بھی نہیں میڈیسن لکھ دی اور اگلے پندرہ دن بعد دوبارہ آنے کا حکم صادر فرمائی ، چودہ دن بعد دوبارہ اسی ہسپتال میں معائنے کے لئے آئے ۔ ابھی آٹھ ماہ چودہ دن ہوگئے تھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے دیکھتے ہی اعلان کیا کہ فورا خون کا بندوبست کیا جائے کل صبح سویرے آپریشن کرنی ہے بصورت دیگر ماں اور بچہ دونوں کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ۔ ایسی صورت میں مریض اور ان کے لواحقین پہ کیا گزرتی ہے وہ کوئی متاثرہ شخص ہی جانتا ہے ، میں خود پشاور میں اور کوئی مرد ان کے ساتھ نہیں، والدہ نے فون کرکے سارا ماجرا بتا دیا تو میں نے حفظ ماتقدم کے طور پر انہیں چترال لانے کا کہہ دیا اور وہ زچہ و بچہ ہسپتال چترال لے کر آئے وہاں ہمارے ساتھ اور دیگر مریضوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اس پر پہلے ہی ایک تفصیلی بلاگ لکھ چکا ہوں ۔ ایک اور تحریر کو کسی اور نشست کے لئے رکھتا ہوں ۔
البتہ اس تحریر کے اختتام پر میں بونی میٹرنٹی ہوم یا آغا خان ہسپتال بونی کے حوالے سے چند ایک سوالات پوچھنے کی جسارت کررہاہوں ۔ یہ باتین میں نے ایک بڑے فورم میں کہی تو کسی نے سننے کی بھی زحمت گوارا نہ کی ،
1۔ کیا کسی بھی ڈاکٹر کا مریض یا ان کے اہل خانہ کے ساتھ کسی طبی مسئلے پر لڑنا جھگڑنا اور لوگوں کو ڈانٹنا طبی حوالے سے جائز ہے۔۔؟
2۔ مذکورہ ہسپتال کے ڈاکٹر ہدایت کرتے ہیں کہ زچگی کے پہلے ماہ ہی سے پراپر معائینہ شروع کیا جائے اور نو ماہ معائینہ و علاج کے بعد بلآخر آپریشن کروانے کی کیا تک بنتی ہے۔؟ اگر آپریشن ہی کروانی تھی تو ان ماہ مہینوں کے معائینے کی کیا ضرورت تھی۔؟
3۔ کیا کسی بھی مریض کو ایک آدھ دو دن ہسپتال میں داخلہ کروا کے ان کا معائینہ کرنے کے بجائے فورا آپریشن کی جانب لے جانا ڈاکٹر کا نان پروفیشنل رویہ نہیں ۔؟ کیونکہ میری اہلیہ کو جب چترال ہسپتال لائی گئی تو وہاں ڈاکٹرنے ان کا معائنہ کرنے کے بعد کسی پیچیدگی یا فوری آپریشن کی جانب نہیں لے کر گئے بلکہ دو دن تک ابزرویشن میں رکھا گیا ،اور آپریشن کے وقت بھی کوئی زیادہ خون کی ضرورت نہ پڑی۔ پھر بونی میٹرنٹی ہوم میں اس طرح ایمرجنسی کیوں دکھائی جارہی تھی۔۔؟
اس تحریر کے ذریعے میں سوشل میڈیا صارفین ، عوام الناس اور آغا خان ہیلتھ سروس کے جملہ لیڈر شپ کے سامنے یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ بونی میٹرنٹی ہوم عوام کو بہتر سہولت دینے کے لئے قائم کیا گیا ادارہ ہے اسے خالص کاروباربلکہ لوٹ مار کا ادارہ نہ بنایا جائے ۔ کیونکہ اسی ادارے میں زچہ و بچگی کے دوران آپریشن کروانے کے حوالے سے بہت ساری باتین اور چی میگوئیاں محو گردش ہے ۔ آغا خان ہیلتھ سروس کو اپنے اسٹاف کے رویوں میں بہتری لانے کے لئے ان کی تربیت کرنی چاہئے ، وگرنہ لوگوں کی جان و مال کے ساتھ کھیلنا کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں۔

Advertisement
Back to top button