اپر چترالسفر کہانیلوئیر چترال

چترال میں سیاحوں کو دعوت دینے والوں سے چند سوالات۔

کریم اللہ

 

جب سے مری کا دلخراش واقعہ رونما ہوا ہے تب سے اہالیان شمال یعنی گلگت بلتستان اور چترال کے باشندے خود کو زیادہ سے ہوشیار اور فرض شناس ظاہر کرنے کےلئے سوشل میڈیا پہ تحریک چلا رہے ہیں کہ مری کے لوگ بہت بے حس اور لالچی ہے، لہذا آپ مری کا بائیکاٹ کرکے چترال یا گلگت بلتستان کی سیاحت کریں جہاں سستے داموں ہوٹل آپ کو ملیں گے اور اگر ہوٹل نہ بھی ملا تو لوگ گھروں میں بھی آپ کو ایکاموڈیشن دیں گے۔ اس سلسلے میں بعض لوگ ہزہائی نس پرنس کریم آغا خان صاحب کے گزشتہ دورہ اپر چترال اور اسی نوے ہزار لوگوں کو بونی میں جگہ دینے کو بطور مثال پیش کررہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہم یعنی اہالیان چترال بڑی تعداد میں سیاحوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر ہمارے اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ایک ہزار گاڑیاں بھی لواری کے راستے چترال کی جانب روانہ ہوگئے تو لواری ٹنل کے آر پار کتنا بڑا ڈیزاسٹر آئے گا کیا کسی کو اندازہ بھی ہے ؟۔ گزشتہ روز لواری ٹنل کو کراس کرتے ہوئے دیر سائٹ پہ چند درجن گاڑیوں کی وجہ سے جو بدترین ٹریفک جام ہوا تھا اس کی ایک وڈیو انواز نیوز پہ موجود ہے ایک آدھ مرتبہ اس وڈیو کو دیکھنے کی جسارت کریں۔ ہر جگہ سانحات کے بعد سافٹ امیج دیکھانے کی کوشش بلکہ چالاکی بہت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے اورآپ کی اس اندھی تحریک اہالیان چترال ہی کے لئے ایک المناک واقعہ بھی ثابت ہوسکتی ہے مگر آپ کو اندازہ بھی نہیں ۔
موسم گرما میں عید کے آیام میں کافی تعداد میں سیاح چترال آئے تو چترال بازار میں سارے ہوٹل بند تھے اور سیاح سڑکوں پہ سو کر رات گزارنے پہ مجبور ہوئے تھے اس وقت آپ کی مہمان نوازی کہاں گئی تھی۔؟ صرف چترال میں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں سیاح بونی کی سڑکوں پہ رات بسر کی ، وہ تو شکر ہے کہ گرمی کا موسم تھا جو انسانی بحران جنم نہیں لیا اور آپ اس ٹھٹھرتی سردی میں انہیں چترال آنے کی دعوت دے رہے ہوں ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران مسلط شدہ حکمران طبقے نے ٹوارزم کے نام پہ تباہ شدہ ماحولیات کا جس اندازہ سے ستیاناس کیا ہے ۔ آنے والی وقتوں میں وہ ہمارے لئے بحرانوں کا پیش خیمہ ثابت ہورہے ہیں۔ جبکہ اس بے لگام سیاحت کا لوگوں کو کچھ بھی فائدہ نہیں مل رہا ہے اور اوپر سے سافٹ امیج دکھانے کے لئے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ سوشل میڈیا میں آکر باولے ہوجاتے ہیں ۔ خدارا ! تعلیم کا مقصد صرف پروپیگنڈہ کرنا نہیں ہونا چاہئے بلکہ زمینی حقائق کو دیکھ کر کچھ لکھ یا بول لیں تاکہ کل کو آپ کے لکھے اور بولے الفاظ کی وجہ سے کوئی بحران نہ آ جائے ۔

Advertisement
Back to top button